وحی اور اس کی حقیقت و ضرورت

 




سلسلہ نمبر: 02                                                                                       

وحی اور اُس کی حقیقت اور ضرورت

وحی کی تعریف:

اللہ تعالیٰ نے اپنے بندوں کی ہدایت و رہنمائی  کے لیےباقاعدہ ایک نظام بنایا ہے ۔اُس نے انسانوں ہی میں  سےکسی کو منتخب فرماکر اسے اپنا پیغمبر قرار دیا اور اس پرا پنا کلام نازل فرماتارہا ، اسی کلام کو وحی کہتے ہیں۔وحی انسان کے لیے وہ اعلیٰ ترین ذریعہ علم ہےجو اُسے زندگی سے متعلق اُن سوالات  کے جوابات مہیا کرتی ہے جواس کے لیے دنیا و آخرت کی کامیابی کا سبب بن جائیں۔

وحی  کی حقیقت اور ضرورت :

ہر کوئی جانتا ہے کہ اللہ تعالیٰ نے انسان کو اس دنیا میں آزمائش کے لیے بھیجا ہے، اور اُس کے ذمے کچھ فرائض لگا کر پوری کائنات کو اس کی چاکری میں لگا دیا ہے۔اس وجہ سے حضرت انسان کے دنیا میں تشریف آوری کے بعد دو (2)  کام اس کےلیے ناگزیر ہوگئے ہیں۔ پہلا یہ کہ وہ اس کائنات اور اس میں موجود چیزوں سے ٹھیک ٹھیک کا م لے۔ دوسرا یہ کہ اس  کائنات اور اس کے اشیاء کو استعمال کرتے ہوئے اللہ تعالیٰ کے تمام احکام کو مدنظر رکھےاور ایسی کوئی بھی حرکت نہ کرے جو پروردگار عالم کی مرضی کے خلاف ہو۔اس لیے ضروری ہوا کہ انسان کو اللہ تعالیٰ کی منشاء اور اپنے حدود کا پوری طرح علم ہو۔

ہم جانتے ہیں کہ انسان کے پاس دو ذرائع ہیں جن کی مدد سے وہ کسی شئے کے بارے میں جانکاری حاصل کرتا ہے ۔ ان میں سے پہلا ذریعہ حواسِ خمسہ ہیں کہ ان کی مدد سے انسان کو کسی چیز کے رنگ ، جسامت ، سختی، نرمی ، ٹھنڈک ، گرمی، تیزی ، سستی، ذائقےاور بُو وغیرہ کا پتہ چلتا ہے۔ دوسرا ذریعہ عقل ہے، جس سے وہ باتیں معلوم ہوتی ہیں جو حواس اور مشاہدے سے نہیں ہوتی۔ جیسے ایک میز کے سائز، ڈیزائن اور رنگ کا علم ہمیں حواس سے ہوجاتا ہے ، اسی طرح کسی درخت کے سائز ، رنگ وغیرہ کا علم بھی حواس سے ہوتا ہے۔ لیکن یہ جاننا کہ میز انسان کی بنائی ہوئی ہے اور درخت بناناانسان کے بس کی بات نہیں ہے، حواس کے بجائے عقل کی ضرورت پڑتی ہے ۔ کیونکہ انسان لاکھ دعویٰ کرے کہ اس نے درخت بنایا ہے لیکن بنا کر نہیں دے سکتا تو ثابت ہوتا ہے کہ یہ اس کی تخلیق نہیں ہے۔ اس دلیل کو لانے اور ثابت کرنے کے لیے جو صلاحیت استعمال ہوتی ہے یہی عقل ہے ۔اسی لیے یہ کہا جاسکتا ہے کہ حواس اور عقل کے اپنےاپنے کام اور حدود ہیں۔ جہاں تک حواسِ خمسہ کام کرتے ہیں وہاں تک عقل کوئی رہنمائی نہیں کرتی،اور جہاں حواسِ خمسہ جواب دیدیتے ہیں وہیں سے عقل کا کام شروع ہوجاتا ہے۔لیکن عقل کی رہنمائی بھی غیر محدود نہیں ہے۔یہ بھی ایک حد  پر جا کر رُک جاتی ہے۔

نچوڑ یہ نکلتا ہے کہ حواس اور عقل ایک حد سے آگے ساتھ نہیں دیتے اور کچھ باتیں اور سوالات ایسے ہیں جن کے جوابات نہ حواس سے حاصل ہوسکتے ہیں نہ ہی عقل سے ۔ اس کے لیے ان دونوں سے برتر صلاحیت کی ضرورت ہے۔اورہم جانتے ہیں کہ  جب صلاحیت برتر ہوگی تو ظاہر ہے کہ اُس صلاحیت کا منبع اور سر چشمہ بھی برتر ہوگا ۔اور اس دنیا کی ہر شئے چونکہ انسان کی ماتحت ہے اس لیے ضروری ہوا کہ وحی ایک ایسی ذات سے آئےجو نہ صرف انسان کے ماتحت نہ ہو بلکہ انسان اُس کے ماتحت ہو اور اُس کا علم کامل اور اکمل ہو اور وہی ذات اللہ تبارک و تعالیٰ کے سوا کس کی ہوسکتی ہے؟ کسی کی بھی نہیں ۔اللہ تعالیٰ نے اپنے بندوں کی ہدایت و رہنمائی  کے لیے ان ہی میں  سے اپنے پیغمبرمبعوث فرمائے  اور انہی کے ذریعے اپنے احکامات اور شریعت اپنے بندوں تک پہنچائی۔تاکہ جو کوئی چاہے اپنے خالق اور مالک کی رضا حاصل کرکے کامیاب ہوسکے۔کیونکہ انسان کا اس دنیا میں اصل کام اپنے رب کی رضا حاصل کرنا ہے۔

 

 خلاصہ کلام:

 واضح ہوا کہ وحی صرف ایک دینی اعتقاد ہی نہیں  بلکہ ایک عقلی ضرورت ہے ۔ جس کا انکاردرحقیقت اللہ تبارک وتعالیٰ کے حکمتِ بالغہ کا انکار ہے۔

رہ گئی  یہ بات وحی کی نزول کیسے ہوتی رہی ، اس پر آئندہ کسی موقع پر تفصیل بمع دلائل اور روایات کے پیش کی جائے گی۔ ان شاء اللہ ۔

 

 

حوالہ جات:       معارف القرآن  از مُفتی محمد شفیع ؒ

 

(کاوش   :  عبداللہ سیماؔب)

 

Post a Comment

0 Comments