بسم اللہ کیا ہے؟




سلسلہ نمبر: 01                                                                                                      

بسم اللہ کیا ہے ؟

بسم اللہ ایک مکمل قرآنی آیت ہے۔جو بھی جائز کام اس اس شروع  کیا جائے اللہ تبارک وتعالیٰ اس میں برکت ڈال دیتا ہے کیونکہ بسم اللہ سے بسم اللہ کا خلاصہ و مطلب یہ ہے کہ میں اللہ تعالیٰ کے نام سے شروع کرتا ہوں ۔اور مقصد یہی ہوتا ہے کہ اللہ تعالیٰ اس میں مدد گار ہو۔

حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہےکہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا کہ جو بڑا کام بسم اللہ سے شروع نہ ہو وہ نا تمام رہے گا ۔

تفسیرِ مظہری میں ہے کہ قراءِ مدینہ و بصرہ اور ابو حنیفہ(رح) وغیرہ فقہاءِ کوفہ کا یہ مذہب ہے کہ بسم اللہ نہ سورۃ فاتحہ کا جز ہے اور نہ کسی اور سورت کا ، بلکہ تبرکاََ (یا دو سورتوں کو جدا کرنے کے لیے) ہر سورت کا آغاز اس سے ہوا ہے۔پھر بعض کا قول ہے کہ بسم اللہ قرآن ہی میں داخل نہیں مگر حق یہ ہے کہ بسم اللہ ضرور قرآن میں داخل ہے (دو سورتوں میں ) فاصلہ کرنے کے لیے نازل ہوئی ہے ۔حاکم نے شیخین کی شرطوں پر اس روایت کی تصحیح کی ہے کہ عبداللہ بن عباس(رض) نے فرمایا کہ رسول اللہ ﷺ دو سورتوں کا فاصلہ معلوم نہ فرماتے تھے یہاں تک کہ بسم اللہِ الرحمٰن الرحیم نازل ہوئی۔امام احمد بن حسن سے بسم اللہ کی بابت سوال ہوا تو فرمایا جو کچھ دو گَتوں کے درمیان ہے سب قرآن ہے۔

معارف القرآن  کے میں ہے کہ تمام اہل اسلام کا اتفاق ہے کہ بسم اللہ الرحمٰن الرحیم قرآن پاک میں سورۃ نمل کا جز ہے اور اس پر بھی اتفاق ہے کہ سوائے سورۃ توبہ کے ہر سورۃکے شروع میں لکھی جاتی ہے۔ آئمہ مجتہدین کا اختلاف ہے کہ بسم اللہ سورۃ فاتحہ یا تمام سورتوں کا جز ہے یا نہیں؟  امام ابو حنیفہؒ کا مسلک یہ ہے کہ بسم اللہ سورۃ نمل کے علاوہ اور کسی سورۃ کا حصہ نہیں ہے بلکہ ایک مستقل آیت ہے۔جو ہر سورت کے شروع میں اور دو سورتوں کے درمیان فصل اور امتیاز ظاہر کرنے کے لیے نازل ہوئی ہے۔     

 

جہر نمازوں میں بسم اللہ کے متعلق سنتِ نبویؐ :

حضور اکرم ﷺ اور حضرات صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین کے عمل کی پہلی دلیل بخاری و مسلم میں حضرت انس (رض) سے مروی ہے کہ میں نے جناب رسول اللہ ﷺ اورحضرت ابوبکر صدیق(رض)  اور جناب حضرت عمر فاروق (رض) کے پیچھے نمازیں پڑھی ہیں۔ ان میں سے کسی نے بسم اللہ کو بلند آواز سے نہیں پڑھا ۔ دوسری دلیل عبداللہ بن معفل کی روایت ہے کہ مجھے میرے والد نے نماز میں بسم اللہ الرحمٰن الرحیم ۔ الحمد للہ رب العٰلمین   بلند آواز سے پڑھتے سنا اور نماز سے فارغ ہونے کے بعد کہا :  بیٹے ! اسلام میں بدعت اور نئی بات پیدا کرنے سے احتراز کرو ، میں نے رسول اللہ ﷺ اور ابوبکر (رض)  و عمر (رض) و عثمان(رض) کے پیچھے نمازیں پڑھی ہیں ۔یہ تو قرات کو بسم اللہ الرحمٰن الرحیم سے شروع نہ کرتے تھے اور میں نے نہیں دیکھا کہ ان سے زیادہ کوئی بدعت کا دشمن ہو۔

ایک گروہ کا یہ قول ہے کہ بسم اللہ سورۃ توبہ کے سوا سورۃ فاتحہ اور دیگر تمام قرآنی سورتوں کا جزء ہے ۔ حالانکہ صحیح حدیث ہے کہ  حضور اقدس ﷺ نے فرمایا کہ سورۃ الملک تیس آیتوں کی ہے۔ سورت الملک کی آیتیں گننے والوں نے اتفاق کیا ہے کہ اس سورت میں تیس آیتیں ہیں۔

 

خلاصہ کلام یہ ہوا  کہ ہم اپنی نمازوں میں قرات شروع کرنے سے پہلے بسم اللہ پڑھتے تو ہیں لیکن جہری نمازوں میں جہر  کے ساتھ نہیں پڑھتے ۔

رہ گئی سورت توبہ کے شروع میں بسم اللہ نہ ہونے کی وجہ تو اس کی وضاحت کسی  موقع پر حفاظتِ قرآن کے موضوع کے تحت  کردی  جائے گی ۔ ان شاء اللہ ۔

 

حوالہ جات:        توضیح القرآن از مفتی محمد تقی عثمانی ؒ

 تفسیرِ مظہری از قاضی ثناء اللہ پانی پتی ؒ

معارف القرآن  از مُفتی محمد شفیع ؒ

 

(کاوش   :  عبداللہ سیماؔب)


Post a Comment

0 Comments