میرا خیال تھا کہ

میرا خیال تھا کہ


کوچ اڈے پر پہنچ کررُکی تو ڈرائیور نے کہا کہ کچھ فیمل سواریوں کو تھانے سے تھوڑا آگے اُتار کر آپ کو گھر پہنچادیتا ہوں۔ لیکن میں نےمنع کردیا کیوں کہ میرا ارادہ تھا کہ کچھ فروٹ وغیرہ بازارسے لیتا جاؤں گالیکن جب فروٹس کی دکانوں پر پہنچا تو ساری بند ہوگئی تھیں۔میں نے جیب سے موبائل نکال کر ٹائم دیکھاتو عشاء کی نماز کے بعد تقریباگھنٹہ گزر گیا تھا۔تو خالی ہاتھ گھر کی راہ لی۔مین روڈ سے مُڑ کر رہائشی علاقے میں داخل ہوگیا تھا اور گلیوں میں سے ہوتا ہوا تیز تیز قدم اُٹھاتے ہوئے  گھر کی طرف بڑھ رہا تھا ۔ کہ ایک آواز نے میری رفتار کم کردی ۔

"خیال کیا ہوتا ہے؟""بے وقوف عورت بتاؤ مجھے خیال کیا ہوتا ہے؟" وہ زور زور سے چلا رہا تھا۔"خبردار، جو دوبارہ بد تمیزی کی تو" نسوانی آواز سنائی دی۔مرد آپے سے باہر ہو رہاتھا"تو کیا ؟  کیا بگاڑ لوگی تم ؟" "ساجداور نائمہ  چلو نانی کے گھر" عورت نےچلا کر دھمکی دی۔ اتنے میں میں نے دروازے پر دستک دی تو یک دم خاموشی چھا گئی۔لیکن کوئی باہر نہیں آیا۔ میں نے دوبارہ اور سہ بارہ دستک دی تو اندر سے "آتا ہوں " کی آواز آئی۔چند لمحوں میں ایک شخص نمودار ہوا۔

"السلام علیکم" میں نے سلام میں پہل کی اور مصافحہ کے لیے ہاتھ بڑھا دیا۔ اس نے وعلیکم السلام کہتے ہوئے ہاتھ ملایا۔ مجھے غور سے دیکھنے لگا لیکن شاید پہچان نہیں رہا تھا۔ میں نے اپنا تعارف کرایا تو دوبارہ سے بہت گرم جوشی سے ہاتھ ملایا اور کہنے لگا" جی جی ! آپ کو تو میں جانتا ہوں اور آپ کے کالم اور شاعری بہت شوق سے پڑھتا ہوں ۔ ویری سوری، اس وقت کسی مسئلے کی وجہ سے تھوڑا پریشان تھا تو " اتنا کہہ کر وہ چُپ ہوگیا اور میری طرف استفہامیہ نظروں سے دیکھنے لگا ۔جس کا مطلب تھا کہ میرے آنے کی وجہ جاننا چاہ رہا تھا۔تو میں نے ہلکے سے کہہ دیا"آپ کے پاس بائیک ہے؟اگر مجھے گھر پہنچادیں تو مہربانی ہوگی مجھے بہت درد ہورہا ہے" "درد۔۔ کہاں پہ ہورہا ہے درد" وہ یک دم پریشان اور فکر مندسا ہوگیا جس سے ثابت ہورہا تھا کہ بہت دردِ دل رکھنے والا بندہ ہے۔میں نے اپنی چھاتی پر ہاتھ رکھ کر بتا یا کہ ادھر ۔وہ فوراََ اندر کی طرف بھاگا اور بائیک سٹارٹ کرکے کے لے آیا ۔ گیٹ سے نکلتے ہوئے بیوی کو آواز دی " ہنی !سیماب ٹی وی والے ہیں نا،ان کے ساتھ جا رہا ہوں جلد ہی واپس آجاؤں گا"جواب میں" ٹھیک ہے جی اللہ حافظ" کہہ دیا گیا۔وہ ہلکے سے مسکرایا اوربائیک میرے قریب لے آیا ۔

مجھے گھر پہنچا کر اس نے واپس جانا چاہا لیکن میں  نے زبردستی روک لیا کہ اس سےکوئی بات کرنی ہے ۔ "جی ضرور ، لیکن اگر مائنڈ نہ کریں تو میں زیادہ رُک نہیں سکوں گا"اس نے   کہا۔"آپ ناراض نہ ہوں تو انتہائی پرسنل  بات کرنی ہے" میں نے جواب دیا تو اس نے کہا  " جی بالکل ارشاد فرمائیے" میں نے کہا کہ گھرکال کریں کہ بیس منٹ بعد آرہے ہیں۔ اس نے کال کی اور بہت پیار سے گھر بات کرکے اور آخر میں بہت ہی چاہت سے اللہ حافظ  کہہ کر میری طرف متوجہ ہوگیا۔ ہم مہمان خانے میں بیٹھ گئے تو وہ بے صبری سے میری طرف دیکھنے لگا۔

میں  نے بات شروع کی"آپ نے میرے سامنے اپنی وائف سے کال پہ بات کی ۔ مجھے بہت اچھا لگا اور دل میں خواہش پیدا ہوئی کہ کتنا اچھا ہوتا کہ میں بھی آپ ہی کی طرح اپنی وائف سے پیاری گفتگو کرسکتا"اس نے صرف "بس جی "کہا ۔"آپ جب گیٹ سے نکل رہے تھے تو آپ نے ہنی کہہ کر اپنی وائف کو پُکارا تھااور اب بھی دو تین دفعہ تو ہنی اورجانی کہا ہوگا" میں نے کھل کربولنا مناسب سمجھا۔ "سوری جی وہ اصل میں " وہ شرمندہ سا ہورہا تھا۔میں نے فوراََ کہا" نہیں نہیں ، ایسی کوئی بات نہیں ہے آپ اگر واقعی میں اپنی وائف سے اتنی محبت کرتے ہیں تو آپ بہت نیک اور خوش قسمت انسان  ہیں "اس نے سر جھکا کر کہا" جی کرتا تو ہوں لیکن " میں نے پوائنٹ پکڑتے ہوئے کہا " لیکن ؟ مطلب بیچ میں کچھ ہے؟" وہ تھوڑا سیریس ہوگیا"بیچ میں مطلب؟"میں نے  صفائی سے کام لیتے ہوئے کہا   "جب میں آپ کے گھر کے پاس سے گزر رہا تھا تواندر سے کسی نے نانی کے گھر جانے کا کہاتھا"

اس نے نظریں جھکا لیں میں نےتیر نشانے پر لگتا دیکھ کر شفقت کا مظاہرہ کرتے ہوئے کہا"آپ مجھے اپنا بڑا بھائی سمجھیں تو کچھ عرض کروں " اس نے میری طرف دیکھے بغیر سر ہلایا۔میں نے مزید کہا"جب آپ میاں بیوی ایک دوسرے سے اتنی محبت کرتے ہیں تو لڑائی کس بات پر ہوئی؟اگر مناسب لگے تو مجھے بتادیں ہوسکتا ہے میں کچھ مدد کرسکوں" اس نے کہنا شروع کیا"جس وقت آپ نے ناکنگ کی اس سے کوئی پانچ دس منٹ پہلے میں گھر آیا۔ جوتے وغیرہ اتار کر ہاتھ منہ دھو کر کھانے کے لیے بیٹھا تو وائف نے بتایا کہ کھانے کو تو کچھ نہیں ہے۔ جو پکایا تھا وہ ختم ہوچکا ہےاس لیےاور پکانا پڑے گا۔ میں نے پوچھاکہ میرا حصہ ؟تو کہنے لگی کہ میرا خیال تھا کہ آپ کھا چکے ہوں گے کیوں کہ اتنی دیر کردی  ہے۔میں نے نرمی سے کہا کہ دیر کرنے کا مطلب کھا نا کھا لینا  کب سے ہونے لگا ہے۔ تو اُلٹا ناراض ہونے لگی کہ میں طنز کررہا ہوں تو مجھے بھی غصہ آگیا۔ جب بات بڑھنے لگی تو مجھے احساس ہوالیکن پھر سوچا کہ جب غلطی اُس کی ہے تو میں کیوں جھکوں؟ "

میں چائے لینے کے بہانے اندر گیا تاکہ وہ خود کو نارمل کرسکے۔ واپس آیا تو وہ قدرے ایزی ہوکر بیٹھا تھا۔ میں نے کہا"میرے ذہن میں ایک تجویز ہے"اس نے اشتیاق سے دیکھاتو میں  نے سمجھاتے ہوئے کہا۔ "یہاں سے واپس ہوکر سب کو خاص طور سے بیوی کو سلام کریں ۔بچوں کے سامنے بیوی سے ہنسی مذاق کی چند باتیں کر لیں اگر وہ نخرہ دکھائے تو آپ مائنڈ نہ کریں جیسے بھی ہو سونے سے پہلے پہلے ناراضگی ختم کرلیں۔اس کا مثبت اثر آپ کے بچوں کی شخصیت پر ہوگا۔ جہاں تک آپ کی وائف کے آج کے رویے کی بات ہے تووہ واقعی بہت نامناسب ہے لیکن آپ کم ازکم تین دن تک اس موضوع پر بات نہ کریں۔ اس کے بعد بے شک سمجھا دیں لیکن ہمدردی اور پیار سے، کیوں کہ آپ نے ہی اُسے سمجھانا ہے آپ کے علاوہ کون ہے جو یہ کرے گا"وہ اُٹھا گرم جوشی سے ہاتھ ملایا اور رُخصت ہوگیا۔

یہاں پر کئی باتیں قابل توجہ ہیں جو کہ آپ نے نوٹ کی ہوں گیں ۔ خاتون ِخانہ کا رویہ ، شوہر نامدار کا آگ بگولہ ہونا وغیرہ۔

لیکن جو سب سے اہم اور مرکزی بات ہے وہ یہ ہے کہ یہ مسئلہ بنا کیوں ؟ لڑائی آخر شروع کیوں ہوئی؟ تو جواب یہ ہے کہ خاتون کے اس جُملے سے" کہ میرا خیال تھا"۔ آج ہم میں سے کتنے ہیں جو "میرا خیال ہے، میرا خیال ہے" کی گردان کرکر کے دوسروں کے دل ٹکڑے ٹکڑے کر رہے ہیں۔اس لیے ضرورت اس امر کی ہے کہ ہم اپنے رویوں کے ساتھ ساتھ اپنے الفاظ کے انتخاب پر توجہ دیں۔

دوسری بات یہ کہ اگر کوئی انجانے میں نامناسب الفاظ استعمال کربھی لے تو ہم انھیں پکڑ کر لڑنے مرنے نہ بیٹھ جائیں ۔ بولنے والے کو سمجھائیں اور اگر نہ سمجھیں تو اپنا راستہ لیں ۔ کیوں کہ کسی سے الجھنا اور راہ راست پر لانا بدترین بے وقوفی ہے۔

اللہ تعالیٰ سے دعا ہے کہ ہمیں نرم رویہ اختیار کرنے اور انتہائی مناسب الفاظ مین بات کرنے کی توفیق عطا فرمائے۔

  

(تحریر : عبداللہ سیماؔب)

Post a Comment

0 Comments