خوب صورت سُوٹ اور جدید فیشن کا پرس ، سَن گلاسزلگائے،شکل وصورت اور لباس سے وہ تعلیم یافتہ اور مہذب لگ رہی تھی ۔ میرے پہنچنے سے پہلے وہ فروٹس شاپ پہ کھڑی تھی اور دکان دار اس کی مطلوبہ چیزیں تیار کرنے میں مگن تھا ۔ میرے سلام کے جواب میں دکان دار نے سلام کا جواب دیتے ہوئے کہا کہ بھائی جان بس دو منٹ ۔میں ایک سائیڈ پر اس کی طرف پُشت کرکے کھڑا ہوگیا۔"جی میری چاند سی بہنا! یہ رہے آپ کے ایک سو بیس روپے بقایا"دکان دار نے شاید پیسے پکڑاتے ہوئے کہا تھا۔"تھینک یُو میری جان سےپیارے بھائی " اس نے جواب دیا ۔مجھے ان کا انداز کچھ عجیب سا لگا۔"اوکے سی یو،اللہ حافظ "سن کر میں سمجھا کہ میری باری آگئی ہےتو دکان دار کی طرف مُڑنے لگا۔"اوہو، سوری سوری" وہ مجھ سے ٹکرا گئی ۔خود کو گِرنے سے بچانےکی کوشش میں اس کے ہاتھ سے شاپر گِر گئے۔"سوری سر ، ویری سوری! ڈونٹ مائنڈ پلیز، آئی ایم رئیلی ویری سوری فار دا ایکسیڈنٹ" وہ بولے جارہی تھی ۔ میں نے شاپر اُٹھا کر اسے تھمائے تاکہ جان چھوٹ جائے۔لیکن یہ کیا اُس نے شاپر لیتے ہوئے بار بار میرے ہاتھوں کو ٹچ کیا بلکہ یوں کہیں کہ پکڑا ۔
میں اس کی حرکت پربہت زیادہ حیران تھا۔ غصہ بھی آرہا تھا
اور افسوس بھی ہورہا تھا کہ کیوں اس کو سامان اُٹھا کر دیا جس کا اس نے ناجائز
مطلب لیا ۔ بلکہ میرے ذہن میں تو یہ تک آیا کہ اس نے مجھے ٹوکر بھی اسی غرض سے
ماری تھی ۔ ایک خیال یہ بھی آیا کہ اس نے مجھے چھیڑنے کی غرض سے ہی یہ سب کیا
ہے۔میرے ہاتھ سے چیزیں لے کر وہ ادھر ہی کھڑی ہوگئی تومیں نے مجبوراََ کہہ دیا
"میڈم تھوڑا سا راستہ دیں گی ؟ کہیں پھر سے ٹکرانے کا اردہ تو نہیں؟""وہ
جی میں " اس نے ٹوٹے ہوئے لہجے میں کہا ۔ میں نےدکان والے کو مطلوبہ اشیاء کا
بتانا چاہا تو وہ کہنے لگا۔"بھائی جان! یہ بیچاری معذور ہیں، میں معافی چاہتا
ہوں کہ واقعہ کے اچانک ہونے سے میں اتنا حواس باختہ ہوگیا کہ نہ ہاتھ پاؤں حرکت
کررہے تھے اور نہ منہ سے کچھ نکل رہا تھا ""اوہ میرے اللہ " میرے منہ سے
نکلا"یعنی انہیں نظر نہیں آتا" غصہ اور ناراضگی کی جگہ نرمی اور ہمدردی
نے لے لی۔
"سوری بھائی ! میں نےآپ کو پریشان کیا" اس نے
روتے ہوئے کہا تو میں نے تسلی دی اور" کوئی بات نہیں "کہہ کر بات ختم
کردی۔ چونکہ جلدی میں تھا تو دکان دار سے بھی بات چیت نہیں کی ادائیگی کرکے روانہ
ہوگیا۔ تین چار دن بعد اُسی دکان پہ فروٹ لینے گیا تو دکان دار نے دور سے آتا دیکھ کربہت محبت اور کچھ کچھ
ملامت سےسلام کیا۔میں نے سلام دعا کے بعد
آرڈر دیا تو اس نے کہا " سر
جی اگر آپ ناراض نہ ہوں تو آپ سے کچھ کہنا ہے" میں نے کہا کہ ضرور کہیں تواس
نے جو بتایا اس سے مجھے اتنا دکھ ہوا کہ
بیان کے لیے الفاظ ڈھونڈنا مشکل ہورہا ہے۔
دکان دار نے بات شروع کی" یہ لڑکی بی ایس انگلش کررہی
تھی اور اس کا چھوٹا بھائی ایف ایس سی میں تھا۔چھوٹا بھائی کالج آتے جاتے ہوئے اسے
بھی بائیک پر اپنے ساتھ لاتا لے جاتا تھا۔میری دکان سے اکثر فروٹ سبزی لینے آیا
کرتے تھے۔چونکہ میرے مستقل گاہک تھے اس لیے کبھی ضرورت پڑتی تو اپنا کوئی سامان
وغیرہ میرے پاس رکھوادیتے یا اگر سامان
زیادہ ہوجاتا اور پیسے کم پڑجاتے تو میں بعد پیسے لینے کی رعایت بھی کرتا ۔کالج
میں موبائل الاؤڈ نہ ہونے کی وجہ سے اس کے بھائی اپنا موبائل میرے پاس رکھا کرتے
تھے۔سلسلہ یوں ہی چلتا رہا کہ اچانک دونوں
غائب ہوگئے ۔میرے ساتھ ان کا تعلق تھا تو بہت قریبی اور بھروسے کا، لیکن چونکہ صرف
دکان تک تھا تو کچھ عرصہ گزرنے کے بعد میں
ان کو بھول ہی گیا۔وقت گزرتا گیا کہ تقریباََ تین سال بعدایک صبح ،جب کہ میں نے ابھی ابھی دکان کھولی تھی۔ میں
اور شاگرد سامان رکھوا رہے کہ ایک رکشاہمارےپاس آکر رکا اور اس لڑکی نے باہر جھانک
کر پوچھاکہ یہ زاہد فروٹ شاپ ہے نا۔ میرے شاگرد نے ہاں میں جواب دیا تو اس نے کہا
زاہد بھائی کہاں ہیں؟حالانکہ میں سامنے کھڑا تھا ۔مجھے کچھ عجیب سالگا لیکن نظر
انداز کرکے جواب دیا کہ جی میڈم
فرمائیے"
زاہد نے لمبی سانس لی اور کہنے لگا" یہ نیچے اُتری اور
زاہد بھائی کہہ کر مجھے پُکارا تو میں نے جی میڈم کہہ جواب دیا یہ ٹٹولتے ہوئے آگے
بڑھی مجھے ٹچ کیا تو میں نے روکنے کو ہاتھ بڑھایا ۔ اس نے میرا ہاتھ پکڑکرچوما اور
دھاڑیں مارکر رونے لگی۔ میں حیران اور پریشان کہ یا اللہ ماجرہ کیا ہے؟ بہرحال منت
سماجت کی بدنامی سے ڈرایا تو چُپ ہوگئی ۔ میں نےچلے جانےکا کہا تو اِس نے جو کہا
اُس نے میرا دل چھلنی کردیا ۔" اتنا کہہ کر زاہد بھی رونے لگ گیا ۔ میں
نےتسلی دی اور آگے بتانے پر اُکسایا تو کہنے لگا" جب میں نے جانے کا کہا تو
یہ کہنے لگی کہ ایک بھائی خود چلاگیا ہے دوسرا مجھے جانے کا کہہ رہا ہے۔ میں کس کے
پاس جاؤں ۔ سوچا تھا بھائی کا غم ہلکا ہوجائے گا لیکن ۔ اتنا کہا اور جانے کو مُڑی
تو گاڑی کے زد میں آتے آتے بچی۔ ڈرائیور نے بُرا بھلا کہا تو اس نے کہا بھائی جان
اندھوں کو ڈانٹا نہیں کرتے۔ اوہ تو یہ بات ہے ، میرے منہ سے نکلا اور بھاگ کر اسے
ہاتھ سے پکڑا ۔ دکان میں لے آیاچائےپانی پلایا ۔ اس پر بیتی ساری کہانی سنی"
زاہد پھر ہچکیاں لینے لگا۔اس کے شاگرد نے کہا زاہد بھائی آپ
ذرا جلدی سے آنے والے سامان کی لسٹ چیک
کرلیں اگر کچھ رہ گیا ہو تو منگوالیتے ہیں ۔میں نے شاگرد کی طرف دیکھا تو اس نے مجھے چُپ
رہنے کا اشارہ دیا۔زاہد اندر گیا تو شاگرد نے مختصر الفاظ میں بتایا "آج سے
تقریباََ تین چارسال پہلے یہ لڑکی اور اس کا بھائی ہمارے یہاں سے فروٹ سبزی لے کر
روانہ ہوئے توگھر جاتے ہوئے تیزرفتاری کی
وجہ سے ان کا ایکسیڈنٹ ہوا جس میں اس کا بھائی موقع پر ہی فوت ہوگیا ۔ یہ سات
مہینے تک بے ہوش رہی ۔ ہوش آیا تو بینائی جا چکی تھی ۔ بھائی کا پتہ چلا تو پھر سے
بے ہوش ہوگئی۔ بڑی مشکل سے چھٹے دن آنکھیں کھولیں۔لیکن آنکھیں وہ جو دیکھنے کی
طاقت سے محروم تھیں۔کئی مہینے رودھوکر صبر
کرلیا ۔ باپ چونکہ جاب کرتا ہے اور ماں بیچاری کوبیٹے کےغم کی وجہ سے شوگر ہوگیا جو کہ اب آخری سٹیج میں ہے۔ اس لیے
یہ مجبوراََ اکیلے پھرتی ہیں۔ ہر جمعے کو بھائی کے قبر پر جاتی ہیں اور وہاں سے
ہماری دکان پر آجاتی ہیں ۔یہاں کوئی پندرہ بیس منٹ رُک کر چلی جاتی ہے۔ اب زاہد بھائی کو بھائی بنالیاہے اور سگے بھائی کی طرح چاہتی ہیں۔ شاید اپنے مرحوم بھائی کی کمی دور کرنا چاہتی ہیں۔اس کا زاہد بھائی کے لیے پیار دیکھ کر مجھے اکثر رونا آجاتا ہے۔ شاگرد
خاموش ہوا تو میں نے فروٹ لیے بغیرجانے کی اجازت لی اور گھرواپس ہوا۔
آپ نے نوٹ کیا ہوگا کہ یہاں کس قدرنقصان ہواہے۔ ایک موت کے
ساتھ ساتھ دو انسان زندہ ہوتے ہوئے مردہ ہیں ۔باپ بیچارہ غمِ روزگار کی وجہ سے مجبور
ہے۔ تقدیر کا لکھا کوئی ٹال نہیں سکتا لیکن اگر اس لڑکی کا بھائی تیز رفتاری کا
مرتکب نہ ہوتا تو کیا ہی اچھا ہوتا ۔ شاید کہ آج حالات اس طرح نہ ہوتے ۔ اس لیے
ہمیں یہ سوچنا چاہیے کہ اس طرح کسی کے ساتھ بھی ہوسکتا ہے ۔ میرے ساتھ بھی اور آپ
کے ساتھ بھی۔ اللہ تعالیٰ سب کی حفاظت فرمائے ۔
اللہ تعالیٰ سے دعا ہے کہ ہمیں اپنے لیے ، اپنے والدین کے
لیے، بہن بھائیوں کے لیے اور اپنے بچوں کے لیے اپنی جانوں کو ضائع ہونے سے بچانے
کی فکر کرنے کی توفیق عطا فرمائے، اور ہر طرح کے ناگہانی آفات سے محفوظ رکھے۔ آمین
(تحریر : عبداللہ سیماؔب)
0 Comments