خوشبواور عطر کا استعمال اور پہچان

خوشبواور عطر کا استعمال اور پہچان

 

نمازمغرب کے لیے صفیں سیدھی کی جارہی تھیں کہ میں پہنچا۔ ایک صف میں جگہ پاکر کھڑا ہوگیا ۔لوگوں کےصحیح طرح سے کھڑا ہونے پر ہر صف میں ایک دو بندوں کےلیے جگہ بننے لگی۔ میرے پہلو میں بھی ایک بندے کی جگہ خالی ہوگئی، تو پچھلی صفوں میں سے کوئی آکر میرے ساتھ کھڑا ہوا ۔ "اُف !!!! یا اللہ خیر " میرے منہ سے نکلا تو اُس شخص نے حیرت اور پریشانی کی عالم میں مجھے پکڑ لیا اور پوچھنے لگا کہ "کیا ہوا، کیا ہوا؟" میں نے طبیعت کی اچانک خرابی کا کہہ کر باہر کا رُخ کیا۔پچھلی صفوں والوں نے مجھے باہر آنے نہ دیا تو میں نےطبیعت کی خرابی اور متلی کا سنگل دے کر راستہ بنا ہی لیا۔ صحن کی تمام صفیں کراس کرکے آخری صف میں کھڑا ہوگیا۔

 

لوگ نماز سے فارغ ہوکر جاچکے تھے اور مسجد میں تقریباََ چار پانچ نمازی رہ گئے تھے جب باہر سے کسی مانوس آواز نے سیماؔب صاحب کہہ کر پکارا۔ میں نے توجہ دی تو معلوم ہوا کہ امام مسجد مولاناصاحب ہیں۔ باہر نکلا تو انھوں نے گرم جوشی سے معانقہ کیا۔پریشانی کے عالم میں طبیعت کا پوچھا تو میں مسکراتے ہوئے الحمدللہ کہا۔ وہ مزید پریشان اور کچھ کچھ ناراض سے ہوگئے۔میں نے کہا" حضرت ! اللہ تعالیٰ کا شکر ہے اب طبیعت تقریباََ ٹھیک ہوگئی ہے"۔ انھوں نے استفسار کیا "ہوا کیا تھا؟"میں نے اندازہ لگا لیا کہ مولانا صاحب اپنی ہمدردانہ فطرت کی وجہ سے ایسے نہیں چھوڑیں گے اور شاید ڈاکٹر کے پاس بھی زبردستی لے جائیں۔ تو بتانا مناسب بلکہ ضروری سمجھا۔

 

اصل میں ہوا یہ کہ  جب میرے سائیڈ میں جگہ خالی ہوگئی تو وہاں پر نئے کھڑے ہونے والے شخص اتنا تیز عطر لگایاہواتھا کہ میرا سر چکرانے لگا اور مجھے متلی سی ہونے لگی۔ میرے آس پاس والوں کو بھی صور حال کا اندازہ تو ہوگیا تھا لیکن وجہ کسی کو معلوم نہ ہوسکی تھی۔بہرحال میں باہر جانے لگا تو ہل چل کا مولانا کو بھی پتہ چل گیا ہوگا اور اس نے پیچھے مُڑ کر مجھے باہر جاتے ہوئے دیکھ بھی لیا ہوگا ۔

 

میرے بتانے پر مولاناصاحب بہت برہم ہوئے اور کہنے لگے کہ سیماؔب صاحب آپ نے اس شخص کو کچھ کہا تو نہیں ہوگا۔میں نے نہیں کہا تو کہنے لگے کہ مسجد میں آنے کے آداب  ہوتے ہیں اس لیے ہر نمازی کو ان پر سختی سے عمل کرنا چاہیے ۔ کوئی ایسا کام مسجد میں نہیں کرنا چاہیے جس سے باقی نمازیوں کو تکلیف ہو۔

مولانا صاحب نے کہا کہ یہاں پر چند باتیں قابلِ توجہ ہیں :

الف۔ مسجد میں آنے والوں کو صفائی ستھرائی کا بہت اہتمام کرنا چاہیے۔

ب۔ کوئی ایسا پرفیوم یا عطر نہیں لگانا چاہیے جس کی بُو اتنی تیز اور ناگوار ہو کہ دوسروں کو تکلیف دے۔

ج۔ اگر کھانسی زُکام  کی شکایت ہے تو ناک وغیرہ اچھی طرح سے صاف کرکے مسجد آنا چاہیے تاکہ دوران نماز 'سڑ سڑ ' کرکے باقی نمازیوں کی نماز میں خلل اور طبیعت میں ناگواری کا سبب نہ بنے۔

د۔ کھانسنے کی صورت میں صف کے کنارے پر کھڑا ہو ا جائے کہ نمازی کھانسی سے متاثر نہ ہوں ۔

س۔ چھینکنے اورکھانسنے کی صورت میں منہ پر ہاتھ وغیرہ رکھنے کا اہتمام کرے۔

ص۔ گرمیوں میں اپنے پسینے اور سردیوں میں اپنی جرابوں کی ناگوار بدبُو سے نمازیوں کو پریشان نہ کرے۔

میرے دل سے دعا نکلی کہ اللہ تعالیٰ ہمیں عمل کی توفیق عطا فرمائے۔  

(تحریر : عبداللہ سیماؔب)

Post a Comment

0 Comments