ہم سب خوش ہیں ۔ کیوں کہ ہمیں جن چیزوں کے ملنے کی
توقع نہیں تھی بلکہ جن کے بارے میں ہم جانتے تک بھی نہ تھے وہ مل گئ ہیں ۔ انسان کی یہ خوبی ہر خوبی پر بھاری ہے کہ وہ
ملنے والی چیزوں پر نظر رکھے اورنہ ملنے
والی چیزوں کے غم میں خود کو ہلکان نہ کرے ۔تو ہم سب خوش ہیں لیکن ۔۔۔۔ لیکن کیا
یہی وجہ ہے ؟
بندے کو اللہ تعالیٰ کا شکر گزار ہونا چاہیے کہ اُس نے اچھی
صحت دی ہے ۔ معاشرے میں ایک مقام دیا ہے، چاہے وہ مقام چھوٹا ہے یا بڑا ۔ تھوڑی
بہت مال و دولت بھی دی ہے ۔ دوست اور رشتہ دار بھی دیے ہیں۔ ان سب باتوں سے بڑھ کر
یہ کہ اگر ہمیں ایمان کی دولت نصیب ہوئی ہے تو اس پر جتنا بھی شکر ادا کیا جائے کم
ہے ۔ لیکن ان سب باتوں کے باوجودہمارے ملک کے اثر علاقوں میں سہولیات کا فقدان ہے
۔ہر روز جیسے کہ ضرور ی ہو گیا ہو کہ جس طرف بھی دیکھا جائے کسی نہ کسی کمی ، کسی
نہ کسی مجبور ی کا احساس ہو۔ ہم سب پھر بھی خوش ہیں ۔ وجہ کیا ہے ؟
ایک وقت تھا
کہ کچی سڑکیں تھیں ۔ نہ بجلی تھی نہ گیس اور نہ ٹیلی فون کی کوئی سہولت ۔ زیادہ تر
لوگ پیدل سفر کیا کرتے تھے ۔ کسی کو کوئی
پیغام دیناہوتا تھا تو کئی کئی میل سفر کرنا پڑتا تھا کیوں کہ اکثر علاقوںمیں سڑکیں ہی نہیں تھیں ۔ کسی کسی گھر میں ریڈیو ہوا
کرتا ملکی اور بین الاقوامی حالات سے خود کو باخبر رکھنے کے لیے وہاں جانا پڑتا ۔ سارے کام کاج چھوڑ کر خبروں کا انتظار
کیا جاتا۔ جو لوگ دیارِ غیر میں ہوا کرتے تھے وہ بذریعہ خط اپنے پیاروں کی خیر خبر
لیا کرتے تھے ۔ اور خط کئی کئی ہفتوں میں اپنے منزل پر پہنچاکرتے تھے۔خط کے آجانے
پر کیا سماں ہوا کرتا تھا جس نے دیکھا ہے
اُسے ہی اس کا پتہ ہے ۔ خط کو کتنا چوما جاتا
کہ بیٹے کا ، بھائی کا ، سرتاج کا محبت نامہ اور عقیدت نامہ ہوا کرتا تھا ۔
پھر پڑھنے ولاڈھونڈا جاتا ۔ خط پڑھ کر سنانے والے کو جو پروٹوکول دی جاتی شایدکہ
آج کے کسی بڑے عہدیدار کو ہی نصیب ہو ۔خط کے بار بار دہرائے جانے کا تقا ضا کیا
جاتا ۔اور پھر اُس خط کو سنبھال کر رکھا جاتا جب اپنے پیارے کی یاد ستاتی تو خط
اُٹھا کر اپنا غم کم کیا جاتا ۔ کیوں کہ اپنے پیارے کو دیکھنے کا موقع تو
مہینوں میں شاید نصیب ہوتا ۔ پھر بھی سب خوش تھے۔ وجہ کیا تھی ؟
لوگ اپنے
عزیزوں کے ہاں ہفتوں ٹھہراکرتے تھے ۔ وجہ کیا تھی؟ شاید کسی کے ذہن میں آئے کے اگر
آج کی طرح ہر بندے کے پاس اپنی سواری موجود ہوتی تو گھنٹہ دو گھنٹے ملاقات کے بعد
مہمان رخصت ہوجاتا اور میزبان بھی چاہتا کہ مہمان جلد از جلد رخصت ہو تو میں کوئی
اور مصروفیت اختیار کروں ۔اور نہ سہی تو فیس بک ہی سے تھوڑا لطف اندوز ہو جاؤں ۔مہمان
کو رخصت کرنے کے لیےمیزبان دور تک اُس کے
ساتھ جاتے ۔ گاؤں کا کوئی فرد محنت مزدوری کے لیے کہیں جانے کے لیے نکلتا تو پورا
نہ سہی آدھا گاؤں تو اُس کو رخصت کرنے کے لیے وہاں تک جاتا جہاں سے کسی سواری کے
ملنے کی اُمید ہوتی ۔اور اُس وقت تک سب بیٹھے رہتے جب تک رخصت ہونے والا رخصت نہ
ہو جاتا ۔پیدل سفر ،کچے مکانات،معمولی خوراکیں ، مہینوں اپنے پیاروں کی خیریت سے
بے خبر رہنا ، سہولیات تو کیا ضروریات بھی پوری نہ ہوتی تھی ۔فیس بک ، وٹس اپ ،
ٹویٹر، مسینجر تو کیا فون کی سہولت بھی
نہیں تھی ۔ لیکن پھر بھی سب خوش تھے ۔ وجہ کیا تھی ؟
پھر ایک وقت آیا کہ اکثر علاقوں میں موجود کچی سڑکیں
پکی سڑکوں میں اور پیدل جانے کے راستے کچی سڑکوں میں تبدیل ہوگئی ۔ تھوڑ ابہت فون کا نظام بھی قائم ہوا ۔بجلی کا
بھی زورو شور ہوا ۔تو حضرتِ انسان نے
حالات کے بدل جانے کے ساتھ ساتھ خود کو بدلنا شروع کردیا ۔ پھر ہرگھر میں بجلی اورہر
گھر میں نہ سہی تو دوسرے تیسرے گھر میں فون نے انٹری دے دی ۔ ٹی وی آیا ۔ ترقی کا
یہ سفر جاری رہا ۔ ہر گاؤں ، ہر محلے کی سڑک اور گلی پکی ہوگئی ہے ۔ہر گھر میں ڈش
آگیا ۔کمپیوٹر آگیا ۔ انٹرنیٹ لگ گیا ۔ ترقی جاری رہی اور انسان بھی اپنے اندر
ترقی لاتا رہا ۔پھر ہر بندے کے پاس اپنا موبائل
اور ہر گھر میں کوئی نہ کوئی سواری کا انتظام ہوگیا ۔لوگوں کا آنا جانا پہلے کی
نسبت کم تو شایدنہیں ہواہوگا، لیکن ایک دوسرے کے ہاں ٹھہرنے کا دورانیہ ضرور متاثر
ہوا ۔کبھی کبھار تو کال کر کے بھی جانے کی زحمت سے جان بچا لی جاتی تھی ۔ پھر کال
اور مسیج پیکج آگئے ۔ عزیزوں کے ہاں جاکر ٹھہرنے کی جگہ پیکج کال نے لے لی اور عام
چھوٹی موٹی ملاقات کی جگہ مسیج نے لے لی ۔ اپنے عزیزوں کو دیکھنا اور اُن کے ہاں
جانا موقوف ہو گیا ۔ کبھی کبھی کسی شادی غمی میں بھی اگر مختصر سی ملاقات ہوجائے
تو صد شکر ۔پھر بھی سب خوش تھے ۔۔ وجہ کیا تھی ؟
اب ہر چھوٹے بڑے مرد وزن کے ہاتھ میں سمارٹ
فونزدکھائی دیتے ہیں ہر موبائل میں کال اور مسیج پیکجز کی جگہ وٹس اپ پیکج ، فری
فیس بک اور ڈیٹا پیکج نے لے لی ۔ پہلے دوست رشتہ گھروں کے پتے پوچھا کرتے تھے ۔
پھر لینڈ لائین فون نمبر ، پھر موبائل
نمبر اور اب ۔۔ اب وٹس اپ نمبر ، فیس بک آئی ڈی کا پوچھتے ہیں ۔ اگر آپ کسی کے
ساتھ ایڈ یا فرینڈلسٹ میں ہیں تو اُسے آپ کی ایکٹیویٹیز کا پتہ چلے گا ۔ وہ بھی آپ
کی خیر خبر لائک یا کمنٹ کر کے لے گا بشرطیکہ آپ بھی اُسے لائیک اور کمنٹ سے گاہے
بگاہے نوازتے رہیں ۔ اگر نہیں تو آپ جہاں بھی ہیں جیسے بھی کسی کو کوئی پرواہ ہی نہیں۔
پھر بھی سب خوش ہیں ۔ وجہ کیا ہے ؟
جہاں تک لائیک
اور کمنٹس کا تعلق ہے کیا ہم کہہ سکتے ہیں
کہ ہم جو کر رہے ہیں اس طرح کرنا چاہیے ۔ ہر کوئی
کہتا ہے کہ اس طرح نہیں ہونا چاہیے ۔ یہ کون سا طریقہ ہے کہ جو ہماری کسی جائز
نائز ، مناسب نامناسب بات پر لائیک اور کمنٹ کرے ہم بھی اُس پر کریں اور جو نہ کرے
ہم بھی اُسے خاطر میں نہ لائیں ۔اور خدانخواستہ اگر کسی کی کوئی بات ناگوارِ خاطر
گزرے تو الامان الحفیظ ۔ ہم وہ وہ گُل افشانیاں کرتے ہیں کہ ہمارے گھروں، گلی
محلوں میں موجود جانور بھی اگر جان جائیں گے تو آبادیوں کو چھوڑکر جنگلوں میں پناہ
لے لیں گے ۔کسی کی ذاتیات پر حملہ کرنا تو ہمیں مچھر مارنے سے بھی آسان نظر آتا ہے
اور کوئی احساس تک ہی نہیں کہ کسی کی جان ، مال اور عزت امانت قرار دیے گئے ہیں۔ بلاتفریق
ہر کسی پر لعنت بھیجنا اور ہر کسی کے ساتھ بد کلامی اور بد تمیزی کرنا تو جیسے
ہمارا مشن بن گیا ہے ۔ چھوٹے بڑے ، تجربہ کار نا تجربہ کار ، تعلیم یافتہ کم علم ،
کسی فن میں ماہر اور اناڑی الغرض کوئی تفریق
اور کوئی تمیز ہی نہیں جب چاہا جس کو چاہا ڈانٹ پلا دی ، پگڑی اُچالی گئی ، گلیا ں
دی گئی ۔۔ ایسے میں اگر کوئی بھلا آدمی کوئی بات شئیر کرنا چاہے یا کسی کی اچھی
بات پر کوئی تبصرہ کرنا چاہے تو اس ڈر کی وجہ سے نہیں کر سکتا تھا کہ کہیں کوئی
بدزبان اور مدر پدر آزاد بے عزتی اور بدنامی ہی نہ کردے ۔پھر بھی سب خوش ہیں۔ آخر
وجہ کیا ہے ؟
سب خوش ہیں ، وجہ معلوم کرنے کی زحمت شاید کسی نے کی ہو۔ خوشی
کی وجہ اگر پوچھی بھی جائے تو شاید کسی کو
پتہ ہو۔کہ اصل وجہ کیاہے ؟یہاں ایک بات نہایت اہم ہے کہ پہلے لوگ حقیقت میں خوش تھے
اور آج ہر کسی کی خوشی بناوٹی اور مصنوعی ہے ۔ اگر ہم حقیقی خوشی چاہتے ہیں تو
ہمیں وہی سب کچھ پھر سے پیدا کرنا ہوگا جو اُن کے پاس تھا ۔
ایک بچے نے اپنے
دادا سے کہا کہ میں حیران ہوں کہ آپ لوگ
ٹیکنالوجی کے بغیر کیسے مطمئن اور خوش تھے ۔ پتہ ہے دادا نے کیا کہا ؟ دادا نے کہا
کہ بیٹا جیسے آپ لوگ خلوص ، رواداری ،احساس اور محبت کے بغیر مطمئن اور خوش ہیں ۔ تو ضروت اس امر کی ہے کہ ہم اپنے آپ میں دادا پر
دادا کے وقتوں کی اقدار اور روایات لائیں تو ہمیں حقیقی خوشی نصیب ہوگی ۔
(تحریر: عبداللہ سیماؔب)
0 Comments