زندگی میں کامیاب ہونےکے آسان گرُ حصہ :1/7


      ہر ذی روح اپنے لیے زندگی کو پُر سکون بنانے کی شعوری اور لاشعوری کوشش کرتا رہتا ہے ۔کیڑے مکوڑوں سے لے کر قوی الجثہ  جانوروں پر  بھی اگر غور کیا جائے تو وہ بھی اپنے آپ کو پُر سکون یعنی کمفرٹ ایبل رکھنے کی اپنی سی کوشش کرتے ہیں ۔ تو قابلِ توجہ امر یہ ہے کہ ہم اشرف المخلوقات ہونے کے ناطے اِس دوڑ میں کیوں کسی سے پیچھے رہیں ۔ ہر کوئی یہ چاہتا ہے کہ نہ صرف اُس کی بلکہ اُس سے متعلق ہر فرد کی زندگی پُرسکون اور پُر لطف ہو ۔ ہر کوئی چاہتا ہے کہ اُسے ایسی زندگی ملے جہاں پریشانی کا گزر نہ ہو ۔
      اِس ضمن میں لا تعداد کتابیں ہوں گی جن کا ذکر کیا جاسکتا ہے  ۔ اُن  کتابوں  میں جو کچھ بھی ہوگا وہ سب درست اور کارآمد ہونے میں ذرا بھی شک نہیں کیا جاسکتا۔لیکن زندگی کے بائیس سال مختلف لوگوں یعنی طلبہ اوران کے  والدین کے مختلف مسائل سننے اور مناسب حل نکالنے میں گزارکرعلی الاعلان یہ کہنے کی جسارت کی جاسکتی ہے کہ کتابوں سے زیادہ سبق ہمارے گردوپیش میں موجود ہے ۔ ضرورت صرف اُس پر توجہ دینے کی ہے ۔ہم نے جو سبق اپنے گردوپیش سے حاصل کیے وہ خلقِ خدا کی بھلائی کا سوچ کر  شیئر کیے جاتے ہیں ۔ شاید کہ ہماری کوئی کوشش کسی مایوس اور تاریک چہرے پر اُمید کی روشنی لا سکے ۔
   اگر کوئی بھی شخص دنیا اور آخرت کی کامیابی سے ہمکنار ہونا چاہے تو ان باتوں کو اپنے اوپر لازم کرلے ۔ یہ وہ باتیں ہیں جو ہم نے اپنے بیٹوں کے لیے وصیت کے طور پر لکھی ہوئی ہیں اور اپنے گھر والوں اور قریبی دوستوں کو اس کی ذمہ داری بھی سونپی ہوئی ہے ۔
پرائی عورتوں سے دور رہنا اور ہمیشہ حلال کمانے کی کوشش کرنا ۔
تکبیرِ اُولیٰ اور روزانہ کی تلاوتِ قرآن کو کسی بھی حالت میں نہ چھوڑنا۔
نہ کبھی داڑھی کو مُٹھی سے کم کرنا اور نہ کبھی ٹخنے ڈھانپنا۔
زبان کو جھوٹ ، دھوکہ ، غیبت ، فحش گوئی اور کڑوے گفتار سے روکنا اور دل کو تکبر ، حسد ، کینہ اور بغض سے پاک رکھنا ۔
اپنے نظر اور دل کی حفاظت  ایسے کرنا جیسےاپنے سمارٹ فون اور لیپ ٹاپ کی حفاظت وائرس وغیرہ  سےکرتے ہو۔
کم کھانے اور کم بولنے کو عادت بنا لینا ۔ کیوں کہ سب کچھ کھا لینا اور ہر بات کا جواب دینا لازمی نہیں ہے ۔
رات کے سونے کا وقت عشاء کی نماز سے گھنٹہ نہیں تو  زیادہ سے زیادہ دو گھنٹے سے لیٹ نہ کرنا ۔ اور صبح اذان سے گھنٹہ پہلےنہیں تو اذان کے ساتھ لازمی اُٹھنے کو اپنے لیے لازمی قرار دینا۔
ہر کام کو اپنے مقررہ وقت پر کرنا کیوں کہ کوئی بھی کام مقررہ وقت سے پہلے کرنا یا مقررہ وقت پر نہ کرکے ٹالتے رہنا پیچیدگیوں کو جنم دیتا ہے ۔
جو میسر ہوجائے اُس پر شکر کرنا اور جو نہ ملے اُس پر صبر کرنا ۔ یعنی حاصل شدہ پر خود کو تیس مار خان نہ سمجھنا اور نہ ملنے پر اپنی جان نہ کھانا۔ یعنی ٹیشن جو کہ آج کل کے لوگوں کا پسندیدہ مشغلہ بن گیا ہے نہ لینا۔
10۔عبادات کو کسی بھی صورت میں ترک نہ کرنا ۔ لیکن عبادات سے زیادہ معاملات پر زور دینا ۔ اور اگر اخلاقیات اپنا لیے جائیں تو کیا کہنے ۔کیونکہ یہ شیطان کی سب سے مضبوط جال ہے کہ انسان سمجھتا ہے کہ بہت عبادت گزار ہوں۔ اس لیے ولی اللہ ہوں ۔ مگر درحقیقت معاملات کی وجہ سے تہی دامن ہوتا ہے ۔
11۔ لوگوں کے مزاج مختلف ہوتے ہیں اس لیے ہر کسی سے اُس کے مزاج کے مطابق برتاؤ کرنا ۔ ہر کسی کو اپنے مزاج کے تابع بنانے کی کوشش نہ کرنا ۔
12۔ جس کام کی ذمہ داری آپ پر نہ ہو اُس کے بارے میں فکر مند نہ ہونا اور نہ اُس کے کرنے والے پر زبردستی اپنی مرضی چلانا ۔

 نوٹ : مزید باتیں اگلے کالم میں ڈسکس ہوں گیں ان شاءاللہ ۔

(تحریر :  عبداللہ سیماؔب) 

Post a Comment

0 Comments