علمائے کرام سے سنا ہے کہ اللہ تعالیٰ و تبارک نے پچاس ہزار
مخلوقات پیدا فرمائی ہیں ۔ ان مخلوقات میں
سے کچھ خشکی پر اور کچھ پانی میں رہتے ہیں ۔ظاہر ہے خشکی اور پانی میں رہنے کے لیے
اللہ تعالی نے اپنی ہر تخلیق کو ضرورت کے مطابق استعداد بھی دی ہے ۔ ہر مخلوق کو
اُسی لحاظ سے جسامت بھی دی ہوئی ہے ۔ یہ
سچ ہے کہ پانی میں رہنے والے جانداروں سے ہمارا کچھ زیادہ واسطہ نہیں پڑتا سوائے
مچھلی کے ۔ مچھلی سے بھی اُس وقت پڑتا ہے جب وہ کھانے کے لیے تیار ہوکر ہمارے
سامنے پیش کی جاتی ہے ۔اگر اس سے پہلےواسطہ
پڑبھی جاتا ہے تو بیچاری صرف جسم رکھتی ہے ۔ جان نام کی کوئی چیزاُس کے پاس
موجود نہیں ہوتی ہے ۔
خشکی یعنی
زمین پرہمارے ساتھ رہنے والے مخلوقات سےپانی پر رہنے والوں کی نسبت ہمارا واسطہ
زیادہ بلکہ بہت زیادہ پڑتا ہے۔ ان مخلوقات
میں کچھ جنگلوں یا کہیں اور حضرتِ انسان سے دور رہائش رکھتے ہیں اور کچھ حضرتِ
انسان کے ساتھ ہی آس پاس رہتے ہیں ۔
جنگلوں میں رہنے والے تو جنگلی ہوتے ہیں اور ظاہر ہے اُن کو پالنے یا اُن کے ساتھ
کچھ لین دین کرنے کی تو انسان کی کوئی تُک ہی نہیں بنتی ۔ جو انسان کے ساتھ
آبادیوں میں رہتے ہیں اُن میں بھی اکثر ایسے ہیں کہ اگر انسان کا بس چلے تو وہ اُن
سب کو فنا کر دے نہیں تو کم از کم اُن کو جنگلوں اور آبادی سے دور کے علاقوں میں
ہی بھگا دے ۔
جن
جانداروں کو انسان نے پالا ہوا ہوتاہے یا پالا تو نہیں ہوتا لیکن اُن سے انسان کے کچھ مفادات وابستہ
ہوتے ہیں اُن کی نسل کو بڑھانے اور ترقی
دینے اور اُن کو صحت مند رکھنے کی اُسے فکر ضرور رہتی ہے ۔ جن جانوروں کو انسان پالتا ہے اور ان کو اپنے
ساتھ گھر کے اندر رکھتا ہے اُن کو پالتو یا گھریلو جانور کہا جاتا ہے ۔ اِن گھریلو
اور پالتو جانوروں میں ایک نام کتے کا بھی
آتا ہے ۔ جو ہے تو پالتو لیکن بے چارہ کبھی کبھی فالتو ہوجاتا ہے ۔کیوں کہ انسان
بنیادی طور مطلب پرست جو واقع ہوا ہے ۔ جس شئے سے غرض ہو اُسے بہت توجہ سے اور بہت
سنبھال کر رکھتا ہے اور جس چیز سے کوئی مطلب یا غرض نہ ہو اُس کی کوئی خاص پرواہ
نہیں کرتا ۔تو کتے صاحب کے ساتھ بھی کبھی کبھار
اِس طرح کی انہونی ہوجاتی ہے، کہ کوئی اُسے کسی ضرورت سے پال لیتا ہے۔ لیکن
جب ضرورت پوری ہوجاتی ہے تو بیچارے کو کسی اور کے حوالے کردیتا ہے ۔عجیب صورت حال
تب پیدا ہوجاتی ہے جب کوئی اور لینا والا نہیں مل رہا ہوتا اور پہلا مالک تنگ آچکا
ہوتا ہے ۔تو اتنی چاہ سے پالے ہوئے بیچارے کتے کے ساتھ کیا کچھ نہیں ہوتا ۔ کبھی
اُسے مفت خورہ ، کبھی بے شرم اور ہٹ دھرم کہاجاتا ہے ۔ تو کبھی بلا وجہ ہی ڈانٹا
اور کبھی تو مارا اور بھگایا بھی جاتا ہے
۔ لیکن کتا بیچارہ اپنی وفادارطبیعت سے مجبور ہوکر اُف تک نہیں کرتا ۔ کوئی اُسے
کتنا بھی رسوا کرے ساتھ چھوڑنے کا نام تک نہیں لیتا ۔
ایک بات جو
پریشان کن اور حل طلب ہے ۔ وہ یہ ہے کہ جب
کتا اپنی بے عزتی پر بھی گھر اور در نہیں چھوڑتا تو وہ وجہ آخر کیا ہے جس کے نتیجے
میں وہ پاگل ہوجاتا ہے ۔ جہاں تک حضرت انسان کا تعلق ہے تو اُس کے پاگل پن کو تو
عشق میں ناکامی، مالی پریشانی ، کسی کی جدائی ، گھریلو ناچاقی ، منشیات کی عادت
اور ادویات کے کثرت سے استعمال کو ٹھہرایا
جا سکتا ہے ۔ لیکن کتے کے حوالے سے تو یہ سارے مفروضے قائم نہین کیے جاسکتے ۔ کہیں
ایساتو نہیں کہ وہ ہمارے رویوں سے دل برداشتہ ہوکر دماغی توازن کھو
بیٹھتے ہوں اور خبر تک نہ ہو ۔اگر ایساہو تو اس کی تو ظاہر ہے ہم سے یوم
ِآخرت کو حساب لیا جائے گا ۔ایک کتے ہی کیا،کسی بھی ذی روح کو تنگ کرنے اور تکلیف
پہنچانے کے بارے میں یقیناََ بازپُرس ہوگی ۔کسی جانور سے اُس کی استعداد سے زیادہ
کام لینے یا اُسے اُس کی ضرورت سے کم خوراک دینے اور اُس کے رہنے کے لیے مناسب
بندوبست نہ کرنے کی بہت سخت جان پڑتال ہوگی ۔اس لیے اپنے پالتو اور اردگرد رہنے
والے بے زبان جانوروں پر رحم کھا نا چاہیے ۔ موسم کے لحاظ سے اُن کے ساتھ خیر
خواہی ہمارے لیے آخرت کا بہترین توشہ بن سکتا ہے ۔
جانوروں کے ساتھ نیکی بہت اچھی بات اور بھلائی
کا عمل ہے ۔جس کے بارے میں کافی سارے واقعات موجود ہیں ۔ جیسے ایک عورت نے بلی اور
اس کے بچوں پر گرم پانی ڈالا تھا تو اُسے اپنے کیے کی سزا دنیا ہی میں ساری اولاد
کے فوت ہوجانے کی صورت میں مل گئی ۔یا کسی رقاصہ نے پیاسے کتے کو پانی پلایا تھا
تو اُس کی وجہ سے اُس کی بخشش ہوگئی تھی ۔خو د محسن ِ انسسانیت حضور نبی کریم صلی
اللہ علیہ و علی آلہ و سلم کی بارہا روشن
مثالیں ہمارے سامنے موجود ہیں ۔ جیسے سفر کے دوران پرندے کا کسی خیمےمیں انڈے
ڈالنا اور پھر حضور کا اس خیمے کو تب تک وہاں پر لگا ئے رکھنے کا حکم دینا ، جب تک انڈوں
سے بچے نکل کر پرواز کے قابل ہوکر اُڑ نہ جائیں۔
جس دین میں
جانوروں کے ساتھ نیکی کا اس قدر اہتما م ہے ۔ اس میں انسان کے ساتھ نیکی کرنے کی
کتنی تاکید ہوگی ۔ المختصر جانوروں سے زیادہ ہمیں انسانوں کی فکر کرنی چاہیے
کیونکہ جب انسان سدھر جائیں گے تو ساری دنیا سدھر جائے گی ۔ تو زیرِغور مسئلہ یہ
تھا کہ کتے کیوں پاگل ہو جاتے ہیں ؟ کتے چاہے
جس بھی وجہ سے اس کیفیت کے شکار ہورہے ہوں انسان کے حوالے سے تو کنفرم ہے
کہ وہ دوسرے انسانوں کے رویوں سے تنگ آکر کسی اور مشغلے میں راہِ فرار اختیار کر
لیتا ہے ۔ کوئی شاعر بن جاتا ہے ، کوئی مصور تو کوئی جانور پالنے میں خود کو مصروف
کر لیتا اور جس کو کوئی مشغلہ راس نہ آئے وہ پاگل ہو جاتا ہے ۔کبھی کبھی تو بات اس حد تک بھی پہنچ جاتی ہے کہ اپنی زندگی کا خاتمہ تک بھی کر
دیا جاتا ہے ۔ تو کیا اس صورتِ حال میں کوئی بھی خود کو بر الذمہ قرار دے سکتا ہے ۔
شاید نہیں بلکہ یقیناََ نہیں۔
تو اپنے گرد وپیش پر گہری نظر رکھنی چاہیے اور اُن لوگو ں کا
ساتھ دینا چاہیے جو کسی وجہ سےپریشان اور دل برداشتہ ہیں ۔ ہوسکتا ہے کسی کی تھوڑی
سی توجہ کسی کی بہت بڑی پریشا نی ختم کر کے اُس کی تاریک دنیا میں روشنی کی کرن لے
آئے ۔۔
(تحریر : عبداللہ سیماؔب)
0 Comments