اُداسیوں کے پہرے ہیں کچھ کر نہیں سکتے
یہ زخم گہرے گہرے ہیں کچھ کرنہین سکتے
خوابوں میں خیالوں میں سدا رہتے ہیں ہمدم
کچھ پھول جیسے چہرے ہیں کچھ کر نہیں سکتے
بربادئ دل کا
قصہ سنائیں تو کسے
احباب میرے بہرے ہیں کچھ کر نہیں سکتے
ہر شخص کو لاحق ضرور ہوتا ہے کوئی غم
ادھر تو دوہرے تِہرے ہیں کچھ کر نہیں سکتے
یوں ٹھنڈی ٹھندی شاموں میں چہکے چہکے سے رونا
تیرے سر اِس کے سہرے ہیں کچھ کر نہیں سکتے
سیماؔب نے جن کے واسطے کیے دیدہ و دل فرشِ راہ
وہ اوروں کے گھر ٹھہرے ہیں کچھ کرنہیں سکتے
( عبداللہ سیماؔب )
0 Comments