بعد جہدِ مسلسل کے اُسے پا تو نہ سکے
زندہ ہیں اُسے دیکھنے زہر کھا تو نہ سکے
وعدہ ملاقات پہ آج روز کی طرح
تاکید بہت کی تھی مگر آتو نہ سکے
روٹھ تمہاری محفل سے جانے لگے تھے ہم
روکا نہ تھا کسی نے پھر بھی جا تو نہ سکے
کہتے ہیں کہ تعویذ بنا کر گلے میں ڈال
گلے سے عمر بھر کبھی لگا تو نہ سکے
کیا فائدہ دن رات ،یوں آہ و فغاں کا
رو روکر اپنے ساتھ اُسے رُلاتو نہ سکے
یوں ہم کو جانِ جاں کہے وہ ناز سے سیماؔب
جانِ جاں کو وہ جانِ جاں بنا تو نہ سکے
( عبداللہ سیماؔب )
0 Comments