دوست کے ساتھ بیٹھک یعنی مہمان خانے میں بیٹھا ہوا تھا ۔
بیٹھک کو یار لوگ گیسٹ روم بھی کہا کرتے ہیں ۔ گیست روم کا ایک دروازہ باہر گلی کی
طرف اور ایک گھر کے اندر کھلتا تھا ۔ اچانک گھر کے اندر سے اطلاعی گھنٹی یعنی ڈور
بیل کی آواز آئی ۔ جس کا واضح مطلب ہوتا ہے کہ باہر کوئی آیا ہے جو کہ آپ سے ملنا
یا اندر آنا چاہتا ہے ۔ جیسے ہی گھنٹی بجی مذکورہ دوست صوفے سے اُچھلا اور یا
خدایاکہتے ہوئے گھر کی طرف کھلنے والے دروازے کے راستے اندر کی طرف بھاگ کھڑا ہوا
۔
ہم سمجھے کہ شاید کوئی ایسا مہمان آیا ہوا ہوگا جس کے آنے
کا ہمارے دوست کو پہلے سے پتہ تھا ورچونکہ وہ ملنا نہیں چاہ رہا ہوگا اس لیے شاید
آنے سے منع بھی کیا ہوگا ۔ شاید دوست نے کسی سے قرض لیا ہوگا ۔ اب مقررہ مدت پوری
ہوجانے کی وجہ سے وہ شخص رقم کا مطالبہ کر
رہا ہوگا اورہمارے دوست کے پاس مطلوبہ رقم
نہیں ہوگی ۔ اس لیے وہ خوف زدہ سا ہوکر اندر گیا ہوگا ۔ ہم نے اپنے واسکٹ اور قمیص کی ساری جیبوں سے
رابطہ کیا تو معلوم ہوا کہ اللہ خیر کرے گا اور اللہ نے چاہا تودوست کی جان چھڑانے
میں کامیاب ہوجائیں گے ۔
دو منٹ میں دوست
واپس آیا تو میری سوالیہ نظریں دیکھ کر مسکُرایا ۔ میں کچھ کہنے ہی لگا تھا کہ اُس
کی نظر قریب المرگ بجلی کے بلب پر پڑی ، توچہرے پر مُسکراہٹ کی جگہ ناگواری نے لے
لی ۔اور دوبارہ گھر کے اندر چلا گیا ۔ میں سوچتا رہ گیا کہ آخر معاملہ کیا ہے ؟ وہ ڈیڑھ دو منٹ کے اندر واپس مسکراتا ہو ا آیا
۔ تو پھر سے وہی گھنٹی کی آواز سنائی دینے لگی جس کی وجہ سے دوست نے اندر کو دوڑ
لگائی تھی۔ "اوخدایا! دا سہ دی" یعنی اے میرے خدا ! یہ کیا ہورہا ہے ؟ کہتے
ہوئے اُس نےپھر سے گھر کی طرف جانے والے دروازے کی طرف رُخ کیا اور پھر سے غائب
ہوگیا ۔ تو مجھے کچھ کچھ شک ہوا ۔ ہو نہ ہو یہ بجلی سے متعلق کوئی معمہ ہے ۔
کیونکہ گھنٹی کے بجتے ہی لائٹ چلی جاتی تھی ۔
دوست واپس آیا
تو ہم نے پوچھا کہ یہ سب کیا ہے ۔ کہا کہ سیماؔب صاحب ! وولٹیج اتنا کم آتا ہے کہ
ریگولیٹر خریدنا پڑا ۔اب جب لگا لیا ہے تو وولٹیج کے اپ اینڈ ڈاؤن کی وجہ سے ہر
چند منٹ کے بعد ریگولیٹر کو ایڈجسٹ کرنے کے لیے کم اور زیادہ کرنا پڑتا ہے ۔
المختصر : میرے دل سے ایک آہ نکلی کہ بجلی کو
درست رکھنے کے چکر نے ہمیں ہمارے کسی کام کا نہیں چھوڑا۔
مذکورہ
مسئلے میں بجلی کا ضیاع اور بجلی چوری کو بہت حد تک عمل دخل ہے ۔یہ بھی درست ہے کہ متعلقہ محکمہ اگر مناسب منصوبہ بندی کر ے تو کسی حد تک کام بن سکتا ہے ۔
اس طرح کی صورت حال میں ہم اکثر حکومت اور اس کے ادارو ںکو
قصوروار ٹھہراتے رہتے ہیں لیکن اس طرح
کرنا بالکل بھی انصاف نہیں کہلایا جا سکتا ۔ کیوں کہ کبھی کبھی ہمارے مسائل ہمارے
اپنے ہی ہاتھوں کے پیدا کرتے ہوتے ہیں ۔ لیکن ہماری خصلتِ ثانیہ بن گئی ہے کہ ہم
اپنی ہر محرومی کے لیے حکومت اور اس کے
اداروں کو مورد الزام ٹھہرانے میں تھوڑی سی بھی کسر نہیں چھوڑتے۔ اور اگر ہم اپنی
کسی بات یا مسئلے کے لیے حکومت یا کسی ادارے کو الزام نہ دے سکیں تو پھر معاشرے یا
کسی فردِ واحد کے سر ہی سب کچھ تھوپ دینے کی اپنی سی کوشش تو ضرور کرتے ہیں ۔ اور اصل میں قصور وار گردانا جانے
والا قصور وار ہوتا نہیں ۔ تو ضرورت اس
امر کی ہے کہ ہم اپنے مسائل کو دیکھیں اور پرکھیں اور جہاں تک ہو سکے خود اس کو حل
کرنے کی کوشش کریں ۔ جو ہمارے بس میں نہ ہو اس کے لیے پھر کسی کی مدد حاصل کریں ۔
(تحریر: عبداللہ سیماؔب)
0 Comments