یہی اُمید ہے



آنکھوں نے اُس کے بات یہ کہی اُمید ہے
کہ راہِ عشق میں ساتھ ہے راہی اُمید ہے

جو حال میرا اُن پہ منکشف ہوا کبھی
بن روئے وہ نہ رہیں گے یہی اُمید ہے

ہو چاہت ِ لیلی میں کہاں قیس کو ملی
تکلیف جتنی ہم نے ہے سہی اُمید ہے

جدائی پہ میرے وہ کبھی شاد نہ ہوئے
لہجے نے اُس کے دی ہے گواہی اُمید ہے

لے لیا امتحان میرا، عشق نے جس طرح
ہے بات کوئی ایسی نہ رہی اُمید ہے

جہاں تک عقلِ ناقص ِ سیماؔب پہنچ پایا
جو دل نہ دے کامران ہے وہی اُمید ہے

( عبداللہ سیماؔب )

Post a Comment

0 Comments