جوسمجھتا ہے مجھے ہوَس ہے پذیرائی کی


واہ کیا بات ہے

جوسمجھتا ہے مجھے ہوَس ہے پذیرائی کی
واہ کیا بات ہے ایسے بھی تماشائی کی

تیرا شیدائی ہے تم اُس سے درگزر کرنا
گر بُری لگی ہو کوئی بات بھی سودائی کی

میں تو ڈرتا ہوں کہ خوشی سے کہیں مر نہ جاؤں
کبھی تو ختم بھی ہوں گی گھڑیاں جدائی کی

ساتھ وہ ہوں تو مخمل لگتا ہے بوریا بھی میرا
دُوری میں روئی مجھےچبھتی ہے رضائی کی

کبھی جذبات اُن کے سرد دسمبر کی طرح
کبھی جلتی ہوئی دوپہر ہےجولائی کی

سب کو چٹکتے ہوئے پھول پیارے لگتے ہیں
لیکن کیا شان ہے کافر تیری انگڑائی کی

کیسے سو جائےگا ناراض اُن کو رکھ کے سیماب
کیسے کٹے گی لمبی رات ہے تنہائی کی

(عبداللہ سیماب)

Post a Comment

0 Comments