دوسروں کے اخلاق سنوارنے کے لیے میں اپنے اخلاق کیسے خراب کروں؟


دوسروں کے اخلاق سنوارنے کے لیے میں اپنے اخلاق کیسے خراب کروں؟

"اے لڑکے ! ذرا ادھر آنا " یہ آواز کسی عام شہری کی نہیں بلکہ خلیفہ وقت کی تھی ۔ جنھوں نے اپنے خادم خاص کو کسی کام سے بلایا تھا ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

        خلیفہ نے اپنے خادم ِخاص کو آواز دے کر بلایا تو ایک نوجوان اندر آیا اور آتے ہی خلیفہ کی طرف دیکھ کر کہنے لگا کہ " کیا بات ہے کیا گھڑی کی گھڑی بلاتے رہتے ہیں ۔" نوجوان مزید گویا ہوا " جب بھی میں کوئی کام کرنے لگتا ہوں آپ آوازیں دینے لگ جاتے ہیں ، مجھے کام کیوں نہیں کرنے دے رہے ۔"

راوی کہتا ہے کہ اس خادم کے انجام کا سوچ کر مجھے پاؤں تلے سے زمین سرکتی ہوئی محسوس ہوئی  ، کیوں کہ وہ خلیفہ وقت سے بد تمیزی کا مرتکب ہو رہاتھا ۔ خلیفہ نے نہایت تسلی سے اُسے اپنی ضرورت بتا کر رخصت کردیا  اور ماتھے پر شکن تک نہ آیا ۔ تو ایک بار پھر مجھے شدید جھٹکا لگا ۔ میں ہکا بکا  رہ گیا کہ منہ پر بدتمیزی کرنے پر بھی اُف تک نہ کی ۔ آخرمعمہ کیا ہے  ؟
   
    خلیفہ نے میری طرف دیکھا ، ہلکے سے مسکرایا اور  ------ اور  چند تاریخی الفاظ اُن کے دہن سےجاری ہوئے  : فرمایا کہ" جب ہمارے اخلاق بگڑ جاتے ہیں تو عوام کے اخلاق سدھر جاتے ہیں اور جب ہمارے اخلاق سدھر جاتے ہیں تو عوام کے اخلاق بگڑ جاتے ہیں ۔ لیکن کسی دوسرے کے اخلاق سدھارنے کے لیے ہم اپنے اخلاق کیسے بگاڑ دیں ۔"

یہاں ہم طبقہ اشرافیہ کا  تذکرہ نہیں کرینگے ۔ ہر طبقے بلکہ ہر بندے کے اپنے مسائل اور اپنی مجبوریاں ہیں ۔ لیکن کیا یہ مسائل اور مجبوریاں تلخی سے حل ہونے والے ہیں؟ یا اس طرح ان میں مزید بگاڑ پیدا  ہو جاتا ہے ؟ کیا اس طرح ہم اپنے مسائل مزید بڑھا نہیں رہے ؟

آج ہم اپنے اردگرد نظر دوڑائیں   ۔ ہم میں سے کتنے ہیں جو دوسروں کے اخلاق سدھارنے کے لیے اپنے اخلاق نہیں بگاڑ رہے  اور دلیل دیتے ہیں کہ لاتوں کے بھوت باتوں سے نہیں مانتے  ۔۔ یا پشتو میں کہتے ہیں کہ کژا  خُلہ سُوک سمہ کڑے   وغیرہ     ۔   لیکن ہم یہ کیوں نہیں سوچتے کہ برائی کو برائی سے ختم کرنے کا فلسفہ آخر کس نے دیا  ہے  ؟۔۔۔ کیا نرمی سے ، منطق سے بات کر کے اور اخلاق سے پیش آکر کام نہیں چلایا جاسکتا  ؟۔۔۔  یقیناََ آپ کا جواب ہے کہ کیوں نہیں چلایا جاسکتا تو آخر کیوں ہم بات بے بات منہ میں انگارے لیے پھرتے ہیں  ؟؟؟

                                                                                             (  عبداللہ سیماؔب  )

Post a Comment

0 Comments