منہ سے خاموش مگر زبانِ حال سے چِلاتا ہوا قاصد



منہ سے خاموش مگر زبانِ حال سے چِلاتا ہوا قاصد

ہمارے چچا محترم کے دوست حج کی سعادت حاصل کرکے گھر آئے تو میں بھی اپنے چچا کے ساتھ اُن کے دوست سے ملنے اُن کے گاؤں روانہ ہوا ۔ اُن کے گاؤں جانے والے راستے میں میرے پاؤں کسی انجانی قوت نے آگے بڑھنے سے روک لیے ۔۔۔۔
جی ہاں !! اُوپر نطر آنے والی تصویر میں موجود درخت نے میری توجہ اپنی طرف مبذول کرائی تو میں دیکھتا ہی رہ گیا  ۔ نتیجتاََ سواری روکی ،  اُترا اور اس درخت کےپاس پہنچ گیا ۔میں تو درخت کی جوانی کے آیام کے بارے میں سوچ رہا تھا کہ کبھی اس کے سائے میں کوئی سستایا ہوگا ، کسی جانور نے اس کے پتے کھائے ہوں گے ، کوئی راہ چلتا ہوا اس کے پھل سے مستفید ہوا ہوگا۔۔۔اوراب بیچارہ بوڑھا ہو کر سوکھ گیا ہے اور شاید کچھ ہی عرصہ میں کاٹ دیا جائے تو اس کا نام و نشان مٹ جائے گا ------ ہائے زندگی کی بے ثباتی ۔۔
میں نے چاہا کہ اُس درخت کی کچھ تصاویر لے لوں ۔۔
لیکن یہ کیا  ؟؟؟؟      جوں ہی درخت کے قریب گیا تو  دیکھتا کیا ہوں کہ درخت کے پہلو میں  کوئی سو رہا ہے ۔ آپ بالکل صحیح سمجھے ، کوئی ہمیشہ کے لیے اس دنیا سے منہ موڑ کر ان قبروں میں لیٹ گئے ہیں ۔۔
مجھے خود پر بہت افسوس محسوس ہوا کہ دیکھو ان قبروں نے مجھے متوجہ نہیں کیا  جن کی طرح مجھے بھی ایک دن ہونا ہے ۔۔ حالانکہ قبر کے دیکھنے سے زیادہ بہتر کوئی نصیحت نہیں ۔
یو زندہ  چہ  دَ مردہ  پہ  قبر  ورشی
دومرہ بس دے نصیحت پہ دے دنیا
حضور نبی کریم صلی اللہ علیہ و علیٰ آلہ و سلم نے فرمایا ہے کہ قبر جنت کا باغیچہ ہے یا جہنم کا گڑھا ہے ۔
رسول اللہ ؐ کا فرمانِ مبارک ہے کہ موت کے متعلق تم جتنا جانتے ہو اگر حیوانات جان لیں توتمھیں کبھی موٹا گوشت نصیب نہ ہو ۔

Post a Comment

0 Comments