اخلاص کو ہمارے بھی آزماؤ تو کبھی
مجبور بن کر ہاتھ کو پھیلاؤ تو کبھی
مجبور بن کر ہاتھ کو پھیلاؤ تو کبھی
شاید کہ کبھی تجھ سے سنوارے بھی نہ جائیں
زلفوں کو میرے چہرے پہ بکھراؤ تو کبھی
زلفوں کو میرے چہرے پہ بکھراؤ تو کبھی
کس طور جی رہا ہوں تیرے جانے کے بعد میں
مہمان بن کے میرے گھر میں آؤ تو کبھی
مہمان بن کے میرے گھر میں آؤ تو کبھی
ممکن ہے اُس کے بعد کبھی آنکھ نہ کھولوں
یوں دبے پاؤں آ کے لپٹ جاؤ تو کبھی
یوں دبے پاؤں آ کے لپٹ جاؤ تو کبھی
قوسِ قزح کو پکڑ کر میں تجھ پہ وار دوں
بارش کے بعد ذرا مسکراؤ تو کبھی
بارش کے بعد ذرا مسکراؤ تو کبھی
خوب جانتے ہو تیرے بغیر کچھ نہیں ہوں میں
خود کو بھی میری طرح کا بناؤ تو کبھی
خود کو بھی میری طرح کا بناؤ تو کبھی
پلکیں بچھا کر تجھے ان پہ ہی سنبھال لوں
قصداََ ہو کہ سہواََ ہو پھسل جاؤ تو کبھی
قصداََ ہو کہ سہواََ ہو پھسل جاؤ تو کبھی
جو دل اپنا، جان اپنی پیش نہ کردوں
اے کاش ذرا دیر کو للچاؤ تو کبھی
اے کاش ذرا دیر کو للچاؤ تو کبھی
میں مر جو نہ جاؤں تو میں سیماب نہیں ہوں
بانہوں میں میری آ کے تم مر جاؤ تو کبھی
(عبداللہ سیماب)
بانہوں میں میری آ کے تم مر جاؤ تو کبھی
(عبداللہ سیماب)
0 Comments