نفس کی مثال
کہا جاتا ہے کہ ایک بادشاہ نے اپنے وزیر
سے پوچھا کہ یہ بچے کیوں رویا کرتے ہیں ؟ والدین کو چاہیے کہ وہ اِن کو رونے نہ
دیں ۔ تو وزیر نے کہا کہ بادشاہ سلامت بچے کبھی ایسی ضد پکڑ لیتے ہیں جس کو پورا
کرنا کسی کے بس میں نہیں ہوتا ۔ بادشاہ نے کہا کہ میں نہیں مانتا کہ کوئی والدین
اگر بچے کو نہ رُلانا چاہیں تووہ رو سکے گا ۔
وزیر نے کہا کہ بادشاہ سلامت فرض کریں کہ میں بچہ ہوں
اور آپ مجھے رونے نہیں دے رہے تو
آزما کر دیکھ لیں۔ بادشاہ نے کہا کہ ٹھیک ہے دیکھتے ہیں ۔ وزیر نے کہا کہ مجھے
دودھ چاہیے ۔ باشاہ نے دودھ منگوا کر دیا ۔ وزیر نے کہا کہ اب مجھے گھی چاہیے ۔
فوراََ گھی پیش کیا گیا ۔ وزیر رونے لگ گیا ۔ پوچھا کیا ہوا وزیر نےکہا کہ دونوں
ملا کر دیے جائیں ۔ فوراََ دونوں کو ملا دیا گیا ۔ وزیر پھر رونے لگا ، بادشاہ نے پوچھا کیا چاہیے
؟ وزیر نے کہا کہ الگ الگ کر کے دیے جائیں ۔ بادشاہ نے حکم دیا کہ دودھ اور گھی
الگ الگ دیے جائیں ۔
وزیر نے روتے ہوئے کہا کہ نہیں یہی الگ الگ
کرکے دیے جائیں ۔ باشاہ نے بہت منت سماجت کی لیکن وزیر نہ مانا ۔ آخر باشاہ نے تنگ
آکر کہا کہ وزیر باتدبیر آپ بچے تو نہیں جو نہیں مان رہے تو وزیر نے ہنس کر کہا کہ باشاہ سلامت میں
تو بچہ نہیں ہوں لیکن بچے تو بچے ہوتے ہیں نا ۔اُن کی جائز خواہش کو تو پورا کیا
جا سکتا ہے لیکن کبھی کبھی وہ ناجائز اور نا ممکن مطالبہ کریں تو کیسے مانا جا
سکتا ہے ؟
اِسی طرح کا ایک اور واقعہ بھی ہے کہ:
اِسی طرح کا ایک اور واقعہ بھی ہے کہ:
ایک
بادشاہ تھا اُس کی اولاد نہیں تھی ۔ ایک دن اس نے وزیر سے کہا کہ بھئی ! کبھی اپنے بیٹے کو لے آنا، اگلے دن
وزیر اپنے بیٹے کو لے بادشاہ کی خدمت میں حاضر ہوا۔ بادشاہ نے اُسے دیکھا اور پیار
کرنے لگا ۔ بادشاہ نے کہا کہ آج سے اس بچےکو رونے نہ دیا جائے ۔ وزیر نے کہا کہ
بادشاہ سلامت اِس کی ہر بات کیسے پوری کی جائے ؟ بادشاہ نے کہا کہ یہ کون سا مشکل
کام ہے؟ میں سب کو کہہ دیتا ہوں کہ بچے کو جس
چیز کی بھی ضرورت ہو وہ چیزاِسے مہیا کی جائےاوراِ س کو رونے نہ دیا جائے ۔
وزیر سمجھدار آدمی تھا اُس نے کہا کہ بادشاہ
سلامت ٹھیک ہے ۔ تھوڑی دیر بچہ رونے لگا ۔ وزیر نے بادشاہ سے کہا کہ آپ اِس سے
پوچھیں کہ کیا چیز چاہیے ہے ؟ بادشا نے کہا کہ بیٹا کیوں رو رہے ہو؟ بچے نہ کہا کہ
مجھے ہاتھی لے کر دیں ۔ بادشاہ نے کہا کہ یہ کون سی مشکل بات ہے ؟ باشاہ کے حکم پر
بچے کو ہاتھی لا کر دیا گیا ۔ تھوڑی دیر بچہ ہاتھی سے کھیلتا رہا اور پھر رونا
شروع کیا ۔ وزیر نے بادشاہ سے کہا کہ
باشاہ سلامت آپ اِس سے پوچھیں کہ کیوں رو رہا ہے ؟ باشاہ کے پوچھنے پر بچے نے کہا کہ
مجھے سوئی چاہیے ۔ باشاہ کے حکم پر بچے کو
فوراََ سوئی لاکر دی گئی ۔ کچھ دیر کھیلنے کے بعد بچے نے پھر رونا شروع کردیا ۔وزیر
نے پھر بادشاہ سے کہا کہ بادشاہ سلامت آپ پھر اِس سے پوچھیں کہ کیوں رو رہا ہے ؟
بادشاہ نے پوچھا تو بچے نے کہا کہ ہاتھی کو اِس سوئی کے سوراخ میں سے گزار کر دو ۔
باداہ پریشان ہوگیا کہ یہ کیسے ہوسکتا ہے ؟ تو وزیر نے کہا کہ میں نے تو پہلے ہی
کہا تھا کہ آپ اِس کی ہر بات کو کیسے پورا کریں گے ؟
یہی مثال نفس کی ہے کہ جس طرح بچے کی ایک بات
مان لی گئی تو اُس نے دوسرے کے لیے ضد شروع کی ۔ اور ظاہر کہ بچے کی ہر خواہش پوری
نہیں کی جاسکتی ۔ اِ س طرح نفس کی خواہشات
کو اگر پورا کرنا شروع کیا تو اِس کا انجام کیا ہوگا ؟ سب بخوبی جانتے ہیں ۔
سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ اِس کا علاج کیا ہونا چاہیے ؟ اِس کا علاج یہ ہے کہ اِس کی اصلاح کی جائے ۔ جائز اور نا جائز ،
ممکن اور نا ممکن کی تمیز سکھانی چاہیے ۔ بچوں کو بھی اور اپنے نفس کو بھی ۔
0 Comments