اے غمِ عشق تجھے دل سے کیسے دھویا جائے
ہمارے بس میں تو اتنا ہے کہ بس رویا جائے
شبِ فراق میں تو شب بھر روتے ہی رہے
نویدِ صبح
آئی ہے تو چلیں سویا
جائے
راہِ جنوں میں تار تار دامن کر بیٹھے ہیں
ہمارے پاس اور کیا ہے جسے کھویا جائے
پتھر کے ساتھ پھل بھی آنگن میں آئے
کوئی تو شجر زندگی میں
ایسا بویا جائے
تم سمجھتے ہو کہ سیماؔب تو بس پاگل ہے
اگر ایسا ہے تو ایسا بھی چلیں ہویا جائے
( عبداللہ سیماؔب )
0 Comments