آنکھوں والے بھی اندھے



      اللہ معاف فرمائے ہم سب ایسی زندگی گزار رہے ہیں کہ توبہ ہی بھلی ۔ایک تو ہم غلط اور خلافِ شرع مبین اعمال کر رہے ہوتے ہیں  اس پر مستزاد یہ کہ ہم اپنے آپ کو گناہ گار یا قصووار بھی نہیں سمجھتے ۔ بے راہ یا گمراہ تو اگر کوئی ہمیں کہہ دے تو اُس کی جان کو آجاتے ہیں۔ جب کوئی ہمیں اللہ تعالیٰ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ و الہ وسلم کی طرف بُلاتا ہے تو ہم کیا کیا کٹ حجتیاں کرتے رہتے ہیں؟ آج کل ہم جن گناہوں میں کثرت سے مبتلا ہیں اور  جن کو ہم گناہ سمجھتے ہی نہیں ان کی تفصیل بہت طویل ہے ۔ کثرت سے کیے جانے کے پیمانے سے اُن میں سرِفہرست بد نظری، غیبت کرنا ، گاناسننا ، نماز نہ پڑھنا اور پڑھنا بھی تو جماعت کے ساتھ نہ پڑھنا ، جھوٹ بولنا ، دھوکہ دہی اور خود پسندی  ہیں  ۔

  اکثر ہوتا یہ ہے کہ ہم اپنے کسی عمل پر خود کو درست ثابت کرنے کے لیے وہ وہ بہانے بناتے ہیں کہ سننے والا  کانوں کو ہاتھ لگا لیتا ہے ۔      پہلی وجہ یہ ہے کہ ایک تو ہم جو کام کررہے ہوتے ہیں اُس کو گناہ سمجھتے ہی نہیں اور اگر سمجھتے بھی ہیں تو اُس کے کرنے میں ہم خود کو قصوروار نہیں سمجھتے ۔اگرکسی سے کہا جائے  کہ یہ نہیں کرنا چاہیے تو جواب ملتا ہے کہ سب کرتے ہیں ۔ اگر برا ہوتا تو سب کیوں کرتے؟ ارے اللہ کے بندے انبیاء علیہم السلام کو بھی تو یہی جواب ملتے تھے ۔ تو کیا انھوں نے لوگوں کے جواب اور ردعمل پر وہ کام جائز قرار دیے تھے۔با الفاط دیگر  ہم کہہ رہے ہوتے ہیں کہ کسی کام کے جائزاور  ناجائز کا تعلق اللہ یا اس کے رسول سے نہیں بلکہ لوگوں کی پسند ناپسند سے ہے ۔ جو کام سب کویا زیادہ لوگوں کو  پسند وہ جائز اورجو سب کویا زیادہ لوگوں کو ناپسند وہ نا جائز ۔

     دوسری وجہ یا بہانہ یہ ہے کہ  میرا تو بہت دل کرتا ہے کہ باجماعت نماز پڑھوں لیکن اللہ تعالیٰ توفیق دے بس ۔یا میرا تو ارادہ ہے کہ بدنظری چھوڑ دوں ۔ بس دعا کریں کہ اللہ تعالی ٰ چھوڑنے کی توفیق دے ۔کیا کبھی کسی ناجائز کام کے کرنے پر بھی توفیق ملنے کا انتطار کیا ہے؟  جو جائز پر توفیق توفیق کی رٹ لگائے ہوئے ہیں ۔ ناجائز کام میں تو نہ کرنے کے لیے اللہ تعالیٰ کی توفیق نہ ملنے کا رونا روتے رہتے ہیں ۔ یعنی غلط اور گناہ کاکام تو ہم خود اپنی  توفیق اور کوشش سے کریں گے اورنیکی اور بھلائی کے کام کے لیے اللہ تعالیٰ توفیق دے گا ۔  نیک کام میں کرنے کے لیے اللہ تعالی ٰ کی طرف سے توفیق اور بُرے کام کے نہ کرنے میں اللہ تعالیٰ کی طرف سے توفیق ۔ کیا منطق سکھایا ہے ہمیں شیطان نے ؟

 تیسرا جو منطق ہم نے اپنے کاموں کے لیے ڈھونڈا ہوا ہے وہ یہ  ہے کہ لوگ کیا کہیں گے۔ شادی میں میوزک نہ ہوگی تو لوگ کیا کہیں گے ۔ فوتگی میں دھاڑیں مار مار کر رونانہ ہوگا تو لوگ کیا کہیں ۔ یعنی ہم سب کام لوگوں کے کچھ کہنے کے لیے ہی کرتے ہیں ۔ اس کا تو یہ مطلب ہوا کہ ہمارا رب نعوذباللہ اللہ تعالیٰ نہیں بلکہ لوگ ہیں ۔اس کے علاوہ جائز کام کو ناجائز طریقے سے کرنا ۔ جیسا کہ یار اگر میوزک نہیں سنیں گے تو کیا کریں گے ۔ ٹائم کیسے پاس ہوگا ؟ اول تو یہ کہ کیا ٹائم پاس کرنے والی چیز ہے ؟ اگر ہے بھی تو کیا جائز کام تھوڑے ہیں جو ہم نا جائز کاموں کے ذریعے سے پاس کر رہے ہیں ۔ رمضان میں بھی روزے کے حالت میں وہ وہ خرافات کرتے ہیں کہ شیطان بھی حیران ہوتا ہو گا۔ٹائم پاس ہی کرنا ہے تو ذکر اذکار سے بھی تو پاس کیا جا سکتا ہے ۔
      اس طرح کے اور بھی بہت سی عادات اور بہت سے مشاغل ہیں جن کا ہم بُری طرح شکار ہیں لیکن اس طرف ہماری توجہ نہیں ہے کہ یہ کام جو کیا جا رہا ہے اس کے بارے میں اللہ تعالیٰ جل جلالہ کا کیا حکم اور نبی مکرم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کا طریقہ ہے ۔
     یقین مانیں اگرتھوڑی سی توجہ سے اپنے مشاغل کا رُخ بدل دیں تو ہم سب بہت ہی آسانی سے اللہ جل شانہ اور اس کے حبیب پاک کو راضی کر سکتے ہیں ۔ کیو ں کہ رب العالمین تو ماں سے بھی زیادہ مہربان اور شفیق ہے ۔ اور رحمت اللعالمین کو تو رب کریم نے بھیجا ہی رحمت بنا کر تھا ۔ تو ابھی اور اسی وقت صرف  ارادہ نہیں ۔ بسم اللہ کریں اور ابتداء کر لیں ۔کیوں کہ اگر ابھی نہیں تو کبھی نہیں۔

(تحریر: عبداللہ سیماب)

Post a Comment

0 Comments