اپنے بڑوں کو سمجھائیں



آج کل عجیب سے واقعات ہورہے ہیں ۔ سمجھ نہیں آتی کہ یہ سب کیوں ہو رہا ہے ؟ آخر غلطی کس کی ہے ؟
     ہوا یوں  کہ دورانِ نماز کسی کی انچی آوازمیں بولنے نے ہماری توجہ  اپنی جانب مبذول کرائی ۔جمعہ کا دن تھا  ہم پہلی صف میں موجود تھے ۔ وجہ یہ نہ تھی کہ ہم بہت سویرے مسجد گئے تھے بلکہ ہم تو نماز سے صرف دس منٹ پہلے ہی پہنچے تھے ۔ پھر بھی پہلی صف میں براجماں ہوگئے تھے ۔ کیوں کہ کچھ تو نمازی پہنچے کم تعداد میں تھے اور جو آئے بھی تھے وہ بھی پچھلی صفوں میں ڈیرے ڈالے ہوئے تھے جیسے کہ نماز کے بعد کوئی اُن کو گھر جانے سے زبردستی روک لے گا ۔ لگتا ہے ہم مسجد میں اپنے رب جل جلالہ کی عبادت کرنے نہیں آتے  بلکہ کوئی قرض چکانے آتے ہیں کہ جیسےہی  قرض کا بوجھ اترے تو ہم یا ہُو کا نعرہ بلند کرتے ہوئے بھاگ کھڑے ہوں ۔ کیا یہی محبت ہے ؟ کیا اسی طرح کوئی محبوب کے گھر جا کر کرتا ہے ؟ واہ رے واہ ہم بھی کیا عاشق ہیں ۔۔۔۔۔۔
     بات یہ ہورہی تھی کہ دورانِ نماز کسی کی اونچی آواز میں بولنے نے ہماری توجہ اپنی طرف مبذول کرائی ۔وہ شخص مسلسل بولتا رہا ۔ یہاں تک کہ میری چار رکعت کی نماز مکمل ہوگئی ۔  بائیں طرف سلام پھیر کر دیکھا تو ان حضرت نے بے نیازی سے سویٹر اُٹھا کر قمیص کے سائیڈ جیب میں موبائلِ نامدار کو  ڈال لیا۔اُس کے قریب بیٹھے دو حضرات اس کو گھور رہے تھے ۔ مجھے خوشی ہوئی کہ شکر ہے کہ کال ختم ہونے پر نہ کسی نے اسے ڈانٹااور نہ کوئی اور بدمزگی پیدا ہوئی ۔ حیرت انگیز خوشی کے ساتھ اس شخص کو دیکھنےکی کوشش کرنے لگا تاکہ نماز کے بعد اس سے ملاقات کرکے اس کو سمجھایا جائے کہ مسجد میں موبائل استعمال نہ کریں کیوں کہ مسجد کا تقدس خرا ب ہوتا ہے ۔ شکل صورت پہچان لینے کے بعد باقی نماز مکممل کرکے دعا وغیرہ سے فارغ ہوکر مسجد سے باہر انتظار کرنے لگا کہ وہ شخص باہر آئیں تو مختصر سی بات کی جائے ۔
     تھوڑی دیر بعد وہ حضرت باہر آئے ۔ بڑی عمر کے تھے ۔ نہایت احترام سے سلام کیا ہاتھ ملایا ۔ حیران ہوکر دیکھنے لگے کیوں کہ پہلی ملاقات تھی جانتے نہیں تھے کہ کون ہے اور کیا کہنا چاہتے ہیں ؟  ہم نے حال احوال پوچھنے کے بعد کہا کہ چچا جی اگر آپ بُرا نہ مانیں تو آپ سے ایک چھوٹی سی بات عرض کرنی ہے ۔ بہت خندہ پیشانی سے فرمایا  کہ جی فرمائیے ۔ ہم نے کہا کہ چچا جی آپ تو جانتے ہیں کہ ہم مسجد میں اللہ تعالی کی عبادت کی غرض سے آتے ہیں ۔ اور مسجد تو سب کا ہے اکیلے ہمارا تو ہے نہیں ۔ انھوں نے کہا جی جی آپ کی بات سولہ آنے درست ہے ۔ ہم نے بات آگے بڑھائی  کہ ایسے میں اگر ہم مسجد میں اپنی مرضی چلائیں گے تو بجائے خوش ہونے اور ہمیں انعام و اکرام دینے کے،اللہ تعالی کے ناراض ہونے اور عذاب دینے کے چانسز بڑھ جاتے ہیں ۔انھوں نے جواب دیا کہ یہی تو میں سب سے کہتا رہتا ہوں کہ مساجد کے تقدس اور احترام کا بہت خیال رکھیں۔ ہم نے عرض کیا کہ  اس لیے ہمیں چاہیے کہ مساجد میں موبائل مکمل بند رکھیں ۔ تاکہ کال ہی نہ آئے اور اگر غلطی سے آن رہ بھی جائے اور کال آبھی جائے تو ہم بات ہر گز نہ کریں ۔
    ارے واہ کیا بات کی ہے آپ نے ۔ ان حضرت نے جواب دیا ۔ مزید فرمایا کہ اصل میں شاید آپ جانتے نہیں کہ میں اسی بات پہ لوگوں کو ڈانٹتا رہتا ہوں کہ مساجد میں ہر گز ہر گز موبائل استعمال نہ کریں ۔ میں نے موقع غنیمت جان کر کہا کہ آج بھی کسی کی کال آئی تھی اونچی آواز میں بات کر رہا تھا ۔ فوراََ کہنے لگے کہ آپ نے مجھے بتایا کیوں نہیں کہاں پر کون سی صف میں کھڑا تھا ۔ میں نے جواب دیا کہ پہلی صف میں بائیں سرے پر ۔ وہ شخص تھوڑی دیر کو خاموش ہوگئےپھر یوں گویا ہوئے کہ اصل بات یہ ہے کہ اگر گھنٹی میں کوئی ساز نہ ہو یا موبائل وائبریشن پر ہو اور کال آجائے اور آپ کوئی غلط بات بھی نہ کر رہے ہوں تو مسجد میں ایسی کال کرنے میں کوئی مضآئقہ نہیں ہے ۔کیا سمجھے ؟ ہم نے نہایت ادب سے کچھ کچھ ڈرتے ہوئے کہا کہ بہت کچھ سمجھ گئے ۔ تو کہنے لگے کہ میں بھی سمجھ گیا ہوں آپ جس شخص کی بات کر رہے ہیں وہ میں ہوں لیکن میں نے کوئی غلط کال تو نہیں کی ۔ اور رہ گیااونچی آواز میں بولنے والا مسئلہ تو میں اونچی آواز میں اس لیے بول رہا تھا کہ اُدھر والے کو بات سمجھ نہیں آرہی تھی ۔ہم جان ہاتھ ملایا سلام کیا اور سر پر پاؤں رکھ کر گھر کا راستہ لیا ۔
      ہمارے بڑے بیٹے نے جو کہ چھٹی جماعت کا طالب علم ہے یعنی کوئی بارہ سال کا ہے راستےمیں گھر کی طرف آتے ہوئے مذکورہ بالا واقعے پر جو تبصرہ کیا اُس نے میرے اوسان خطا کیے  ۔ اُس نے کہا کہ ہم لوگوں کا یہ مزاج بن گیا ہے کہ اگر ہم خود کوئی ممنوع یا غلط کام کریں تو اُس کے لیے ہمارے پاس کتنی مضبوط دلیلیں ہوتی ہیں  ۔۔ اور اگر وہ کام کوئی اور فرد کرے تو اس کو سب کے سامنے ڈانٹنا اور بے عزت کر کے رسوا کرنا ہمارا فرض بھی بن جاتا ہے  اور حق بھی ۔۔۔ 

(تحریر : عبداللہ سیماؔب)

Post a Comment

0 Comments