ہم ہیں اُداس کاش انھی کو خبر ہو جائے
اُن کے سینے میں شاید نرم پتھر ہو جائے
کہہ جو دیا کہ آئیں گے اب انتظار تو ہے
چاہے رات گزرے اور ہم پہ سحر ہوجائے
سجدہ شکر اس عنایت پہ روز ہم کریں گے
اُن کودیکھنا ہمارا روز ، مقدر ہوجائے
دل کو تکلیف دینے والوں کو نکالیں کیسے
کیا پتہ ان کے جانے سے دل کھنڈر ہوجائے
ہم کونہ چاہنے کا کوہِ گراں ہے دل میں
کسی طرح سے، گرتے پڑتے کہ یہ سر ہوجائے
روز نِت نئے طریقوں سے ستائیں خود کو
میرے دل کی بے تابی، ان کو باور ہوجائے
جتنا سیماؔب کھینچا جاتا ہے اُدھر اُدھر کو
کتنا اچھا ہو کہ کچھ وہ بھی اِدھر ہو جائے
( عبداللہ سیماؔب )
0 Comments