ہم نے محبت کو یوں اُس کے آزمانا چاہا
توڑ کر اوروں سے صرف اپنا ہی بنا نا چاہا
لپٹ کر روئے ساری رات اُس کے پاؤں سے ہم
صبح ہوتے ہی ستم گر نے پھر بھی جانا چاہا
وہ یہ سمجھا کہ طلب گار اُس کے جسم کا ہوں
سختئ زیست سے بچانے
کو اپنانا چاہا
وعدہ کیا اُس نے
خواب میں آجانےکا
چلتے پھرتے میں بھی خود کو ہم نے سُلانا چاہا
یہی ایک حل تھا غبارِ دل کو دھونے کا
گلے سےلگ کرسیماؔب رونا اور رُلانا چاہا
(عبداللہ سیماب)
0 Comments