کیا وہ اب بھی ہمیں ؟
بعد مدت کے اُنھیں
دیکھا تو پہچان نہ سکے
کیا وہ اب بھی ہمیں چاہتے ہیں یہ جان نہ سکے
تیری بے بسی پہ دل ، رویا اُن کے جانے کے بعد
تجھے چیر کر تیرا
حال کر بیان
نہ سکے
محفل میں شمع کی مانند ہم
جلتے ہی رہے
چاہا کہ ہو جائیں قربان ، ہو قربان نہ
سکے
اُن کے آنے پر ،
ہم نے خود کو بنا تو دیا
لاکھ انجان مگر پھر بھی بن انجان نہ سکے
ہم نے روکا اُنھیں بہت لیکن روک نہ پائے
تنہا ہوجائیں گے اس
کے بعد ، وہ یہ مان
نہ سکے
کل کے وعدے پہ جی رہے ہیں سیماؔب اپنے آپ ہی
سچ تو یہ ہے کہ
اُن سے لے کوئی
پیمان نہ سکے
(عبداللہ سیماب)
0 Comments