شاید آپ جانتے نہیں کہ آپ بھی ۔۔۔۔۔
ہم ایک ایسے علاقے سے تعلق رکھتے ہیں جہاں پر
پشتو اور ہندکو دونوں زبانیں بولی اورسمجھی جاتی ہیں لیکن یہ وثوق سے کہا جا سکتا ہے کہ
یہاں پر پشتو بولنے اور سمجھنے والوں کی تعداد زیادہ ہے ۔ گو کہ یہاں پر پنجابی
اور سرائیکی بھی بولی جاتی ہے لیکن ان زبانوں کے بولنے والے یہاں کےمقامی نہیں ہیں
یعنی کسی اور علاقے سے کاروبار کے سلسلے میں یہاں آئے ہیں اور دہائیوں سے رہائش
پذیر ہیں ۔
پشتو یہاں کی سب سے زیادہ بولی جانی والی
زبان کے حوالے سے ایک نمبر پر تو ہے مگر جیسا کہ ہر زبان کے ساتھ ہوتا آرہا ہے کہ
ہر چند کلومیٹر پر اُس کے الفاظ اور لہجے میں فرق آتا رہتا ہے وہ یہاں کی کثیر
الاستعمال زبان پشتو کے ساتھ بھی ہوتا رہا ہے ۔یہ کوئی انہونی بات نہیں اور نہ کوئی ایسا مسئلہ ہے جس پر سر پکڑ
بیٹھ جانا چاہیے اور لمبے لمبے منصوبے بنانے چاہئیں ۔کیوں کہ یہ سب زبانوں کے ساتھ
ہوتا رہتا ہے تو یہاں بھی یہی کچھ ہوگا ۔ ہم نے جس امر کی طرف آپ کی توجہ مرکوز
کرنی ہے وہ کچھ اور ہے ۔
ہر انسان کو جس طرح اپنے آبائی وطن سے بے
انتہا محبت بلکہ عقیدت ہوتی ہے اُسی طرح ہر انسان کو اُس کے مادری زبان سے بھی
محبت بلکہ عقیدت ہوتی ہے ۔ یہ جذبہ گھر سے اور وطن سے باہر نکل کر بخوبی محسوس کیا جاسکتا ہے ۔ جولوگ وطن سے دور دیارِ
غیر میں زندگی کے ایام گزار رہے ہیں وہ جانتے ہیں کہ وطن اور اُس کی محبت کیا ہے
؟ یا اپنی مادری زبان سننے کے لیے کیا کیا
پاپڑ بیلنے پرتے ہیں ؟ کیوں کہ جب پاس کوئی اپنا ہم زبان نہ ہو تو باوجود سعی
بسیار کے آپ اس مٹھاس سے لطف اندوز نہیں ہوسکتے ۔یہی وجہ ہے کہ ہر زندہ دل اور
زندہ ضمیر انسان اپنے آبائی وطن کی حفاظت کی طرح اپنی مادری زبان کی حفاظت بھی
اپنا فرض سمجھتا ہے ۔
یہ ہماری خوش نصیبی ہے کہ اللہ تعالی و
تبارک نے ہمارے علاقے شکردرہ میں بھی ایسے لوگ پیدا کیے ہیں جو اپنی مادری زبان کی
ترویج اور ترقی کے لیے دن رات محنت کرتے رہتے ہیں ۔ ان میں نثر نگار بھی ہیں اور
شعراء بھی ۔یہاں ہم کسی کا نام نہیں لیں گے کیوں کہ سہواََ ہی صحیح ، لیکن
خدانخواستہ اگر کوئی نام رہ گیاتو اُس کی دل آزاری ہوگی ۔الغرض یہ کاوشیں بہت پہلے
سے جاری تھیں اور جاری ہیں ۔ ان سب کا
مقصد اور منزل ایک ہی ہے اور وہ ہے اپنی مادری یا قومی زبان کی خدمت ۔ خدمت کا یہ
فریضہ سر انجام دینے کے لیے چاہےوہ انفرادی کوشاں ہیں یا کسی جماعت یا انجمن کی صورت
میں سب قابل ستائش اور قابل تحسین ہیں ۔
اتنی لمبی چوڑی تحریر کی وجہ شکردرہ ادبی کاروان کا ماہوار
مشاعرہ ہے جوآج کاروان کے دفتر میں منعقد ہوا جس میں کاروان کے شعراء نےجوش و خروش سے شرکت کی اور اپنا اپنا کلام پیش کیا ۔ اس مشاعرےمیں دو نئی اور حوصلہ افزاء باتیں دیکھنے کو ملیں ۔
1۔ کاروان کے بعض شعراء کی اردو شاعری کی طرف توجہ
تھی جس کے بنیاد پر بہت عمدہ کلام لکھا گیا تھا ۔ ان شعراء میں سرفہرست امجد شعیب امجد
، عبدالرحمان فرہاد خٹک اور عبداللہ سیماب کے نام تھے ۔
2 ۔ کاروان کےسرپرست زر بادشاہ مجبور کی تحریک
پر کاروان کے صدر عبدالرحمٰن فرہاد خٹک کی کاوش تھی جو انھوں نے نثر میں کی تھی ۔فرہاد
خٹک کے علاوہ دوسرے شعراء بھی اس میدان میں اترنے کے لیےپر تول رہے ہیں ۔ اُمید ہے
بہت جلد خوش خبری سننے کوملے گی ۔
یہاں پر ان باتوں کا ذکر کیوں جا رہا ہے ؟ اس
کی دو وجوہات ہیں :
پہلی وجہ یہ ہے کہ اگر ہم اپنی نوجوان نسل کو
تھوڑی بہت تحریک دیں تو وہ بہت کچھ کرنے کی صلاحیت رکھتے ہیں۔
دوسری وجہ یہ ہے کہ اگر نوجوان تھوڑی بہت ہمت
کریں تو وہ بہت کچھ کرنے کی صلاحیت رکھتے ہیں ۔
مختصراََ یہ کہ ہم بحیثیت پاکستانی قوم کےکسی
بھی مثبت کام میں کسی سے کم یا پیچھے نہیں
ہے ۔ ضرورت صرف کام کرنے کی ہے ۔ جس کی
اگر مثالیں دینی شروع کردی جائیں تو بہت ہی زیادہ وقت اور توانائی درکار ہوگی۔ اور
جہاں تک شکردرہ کا تعلق ہے تو یہاں پر ایسے ایسے ہیرے موجود ہیں کہ ایک ایک کےتعارف
اور تذکرے کے لیے الگ الگ کتاب کی ضرورت ہے ۔
یہاں ایک بات کرنے کی جسارت کرتا
ہوں کہ اگر ہم ادب کی ترقی کے لیے کچھ کر
سکتے ہیں توخود کو کام کے لیے بلاجھجک پیش کیوں نہیں کرتے ؟ اگر ہم اپنے آبائی وطن کی خدمت اور حفاظت میں
فخر محسوس کرتے ہیں تو اپنی مادری زبان کی خدمت اور حفاظت میں شرم اور ڈر کس بات
کا ؟
تو قلم اُٹھائیں آپ
دیکھیں گے کہ آپ کے اندر ایک عظیم شاعر اور نثر نگار چھپا بیٹھا ہے بس اُسے باہر
آنے میں آپ کے تعاون کی ضرورت ہے ۔
(تحریر :عبداللہ سیماؔب)
0 Comments