میں نے فیس بک سے قرآن مجید سیکھا


اللہ تعالی ٰ ہمارے استادِ محترم حضرت مولانا شاہ پور محمد دامت برکاتھم العالیہ کو با برکت لمبی زندگی عطا فرمائے اور ہمیں ان کی ذاتِ بابرکات سے استفادہ کرنے کی توفیق عطا فرمائے ۔ ناچیز نے ان سےفقہی مسائل کی  کئی ابتدائی کتابوں کے علاوہ احادیث  اور قرآن مجید کا ترجمہ وغیرہ پڑھا ہے ۔ ایک دن ہمارےے استاد محترم مجھے سورت الفرقان کی ایک آیت مبارکہ(واِذَا خَاطَبَھُمُ الجٰھِلُونَ قَالُو سَلَاماََ)  کا  ترجمہ اور تشریح سمجھا رہے تھے ۔ میں سمجھ تو گیا تھا اور  سب کچھ بہت اچھی طرح ذہن نشین بھی ہوگیا تھا ۔ لیکن ایک خلش سی تھی جو ابھی تک بے قرار کیے ہوئے تھی ۔کہ یہ بھلا کیسے ہوسکے گا کہ کوئی جاہل کوئی فضول بات کرے گا اور  عقل سلیم رکھنے والا خود کو اس سے بچا کر گزر جائے گا ۔  اور اللہ تعالی ٰ و تبارک کا فرمان تو ہر حال میں کامل اور یقینی ہے ۔تو اس کی کوئی نہ کوئی صورت تو ہوگی لیکن عملی طور پر مجھے ایسا کرنا بہت مشکل محسوس ہورہا تھا ۔ کئی دن کی پریشانی کے بعد ایک دن ہمت کرکے میں نے استاد محترم سے ذکر کیا تو انھوں نے کافی تسلی بخش جواب دیا ۔ میں وقتی طور پر مطمئن بھی ہوگیا ۔ لیکن کچھ عرصے کے بعد پھر وہی پہلے والی کیفیت ہونے لگی ۔ کئی علمائے کرام سے راہنمائی حاصل کی ۔ سب نے اپنے اپنے طور پر بہت عمدہ اور مدلل انداز میں سمجھایا ۔ میں تقریباََ مطمئن ہوگیا ۔
اس سارے معاملے کو تقریباَِ 20 ، 25 سال سے اوپرہو گئےتھےلیکن پھر بھی کبھی کبھی  ذہن یہ بات آتی کہ یہ کیسے ہوگا کہ ہم لغو اور فضول بات یا کام دیکھیں اور دامن بچا کرگزر جائیں ؟  وقت گزرتا گیا  لیکن میرے ذہن سے یہ بات نکل نہ سکی ۔ پھر ہمارے ہاں موبائل آگیا ۔ کالز اور مسیجز ہونے لگے ۔ پھر سمارٹ فونز آگئے ۔ فیس بک کا دور دورہ ہوا۔ آئی ڈیز اور فیس بک گروپس بننے لگے ۔ دیکھتے ہی دیکھتے  ہر طرف سے مرد و زن میدان میں کھود پڑے ۔ کیا چھوٹا کیا بڑا ، کیا اچھا کیا بُرا اور کیاکارآمد اور کیا بے کار ؟ یوں سمجھ لیں جیسے برسات میں بارشوں کےبعد  ہر طرف جھوہڑ اور تالاب نظر آتے ہیں اور ہر طرف سے مینڈکوں کے ٹرانے کی آوازیں آتی ہیں ۔ایک دوسرے پر کیچڑ اچھالنا،خود کو اچھا اور بڑا اور دوسروں کو بُرا اور چھوٹا ثابت کرنے کی جیسے ریس لگ گئی ہو ۔ وہ طوفان ِ بدتمیزی ہے کہ اللہ کی پناہ ۔ دل کرتا بھی ہے تو فیس بک کا رُخ نہیں کیا جاسکتا کیوں کہ ڈر ہوتا ہے کہ کہیں کوئی نازیبا پوسٹ یا کمنٹس طبیعت خراب نہ کردے ۔ اوپر سے دوست احباب کے شکوے الگ کہ آپ ہمارے پوسٹس پر لائک اور کمنٹس نہیں کیا کرتے ۔ دوسری طرف فیس بک کی افادیت بھی اپنی جگہ مسلم ہے ۔ بہرحال چاہتے یا نہ چاہتے ہوئے ہمارا  واسطہ فیس بک سے پڑتا رہا ۔
اس دوران اگر ہزاروں کی تعداد میں نا پسندیدہ چیزیں سامنے آئیں تو ہزاروں کی تعداد میں اچھی اور پسندیدہ بھی ملیں ۔ لیکن اگر سچ کہا جائے تو ہم سب فیس بک کا زیادہ تر استعمال لایعنی اور بے مقصد چیزوں کے لیے کررہے ہیں۔ بلکہ اگر یوں کہا جائے کہ ہم میں سےاکثر تو صرف فیس بک کا فضول استعمال ہی جانتے ہیں ۔ اس کے کا رآمداستعما ل کا تو ہمیں پتہ تک نہیں ہے تو زیادہ غلط نہیں ہوگا۔ہمارے ہاں فیس بک جن باتوں کے لیے استعمال بلکہ مخصوص ہوگیا ہے و ہ کچھ اس طرح ہیں ۔
1۔بلا ضرورت ایک دوسرے کے خلاف زہر افشانی کرنا
2۔ دوسروں پر کیچڑ اچھالنا
 لایعنی گفتگو کرنا
4۔ حیا سوز سین اپلوڈ کرنا
 5۔اپنے ہی مسلما ن بہن بھائیوں کی گوشت کھانا
6۔ وقت کا ضیاع کرنا
  بلا تحقیق تبصرےکرنا
8۔ہر کس و نا کس پر الزامات لگانا
9۔ اختلافات کی صورت میں دوسروں کی عزت و ناموس کی دھجیاں اڑانا
10۔ چاہے پیچھے کوئی موٹےتازے مونچیں رکھنے والا گھبرو ہی کیوں نہ بیٹھا ہولیکن لڑکی کی نام والی آئی ڈی دیکھ کر لائیکس اور کمنٹس کی بارش کرنا
11۔ دینی اور اسلامی شعائر کا مذاق اڑانا
12۔ علماء اور مدارس کے خلاف نامناسب رویہ رکھنا
13۔ سیاسی مباحثوں میں آپس میں الجھنااور تلخ کلامیاں کرنا
14۔ قوم و ملک کے سرکردہ شخصیات کی توہین اور بے عزتی کرنا
15۔ صرف لائکس اور کمنٹس کی خواہش میں فضول بلکہ واہیات پوسٹس کرنا  وغیرھم
یہ فہرست بہت طویل ہے  لیکن وقت کی کمی کی وجہ سے چند پر ہی اکتفا کررہے ہیں ۔ بہرحال یہ ساری چیزیں دیکھ کر بہت گھٹن سی ہونے لگتی تھی ۔  اس گھٹن سے بچنے کے لیے اپنی ضرورت پوری کرنے کے لیے بھی فیس بک کا رخ کرنے کی ہمت نہیں ہوتی تھی  اور کبھی کبھار اگر لاگ ان ہو بھی جاتے تھے تو ایسے واپس بھاگنا پڑتا جیسے کسی بدبودار مقام سے بھاگنا پڑتا ہے ۔  حالت وہی بن گئی تھی کہ نہ جائے ماندن اور نہ پائے رفتن ۔
الغرض  اپنی ضرورت کے ہاتھوں مجبور ہو کر فیس بک سے ناطہ رکھنا ہی پڑا۔ کہ ایک دن کرنا اللہ تعالیٰ کا کیا ہوا کہ ہمارے دماغ میں قرآن پاک کی سورۃالفرقان کی مذکورہ بالا آیت مبارکہ اور اپنے استاد محترم حضرت مولانا شاہ پور محمد دامت برکاتھم العالیہ کا کیا گیا ترجمہ بمع تشریح گونجنے لگا ۔  بس پھر کیا تھا ہمارے دل ودماغ میں جو خلش تھی وہ ایسی گئی کہ جیسے تھی ہی نہیں ۔ ہم پر واضح ہوگیا کہ جاہل اور فضول لوگ کی جہالت سے بھری ہوئی فضول اقوال و افعال سے کیسے بچا جاتا ہے ۔
اس لیے میں یہ برملا کہتا ہوں کہ تھینک یو فیس بک ۔۔۔ تیری ہی بدولت مجھے قرآن پاک کی آیت مبارکہ پر عمل کرکے خود کو عبادالرحمٰن یعنی رحمان کے بندوں میں شامل کرنے کی توفیق ملی ہے ۔۔ تھینک یو فیس بک اگین اینڈ اگین۔۔ اور ان لوگوں کا بھی بہت بہت شکریہ جنہوں نے خود کو جہلاء بناکر ہم  جیسے فقیروں کو رحمان کے بندوں میں شامل کیا ۔

(تحریر : عبداللہ سیماؔب)

Post a Comment

0 Comments