آنکھ ہی نہیں کھلتی



"کیا بات ہے آپ پھر لیٹ آگئے ہیں؟" سادہ خان نے اپنی دکان پر پہنچنے والے آخری شاگرد کو ہلکا سا ڈانٹا ۔ تو اس نے جواب میں کہا کہ " کیا کروں استاد آنکھ ہی نہیں کھلتی"۔ "آنکھ نہ کھلنے کا آپ نے اچھا بہانہ ڈھونڈ نکالا ہے" سادہ خان نے کہا۔ شاگرد نے سامنے سےڈھٹائی سے کہا " استاد کوشش تو بہت کرتا ہوں لیکن کیا کروں کھلتی ہی نہیں"۔ سادہ خان نے قدرے سخت لہجے میں کہا" یہ آپ کی آنکھ ہے یا زنگ شدہ نٹ، جو کوشش کے باوجود بھی نہیں کھلتی؟ بس ایک کام کریں یا لیٹ آنا چھوڑ دیں یا میری دکان۔ میں آپ کی وجہ سے روز گاہک ناراض نہیں کرسکتا ۔ کوئی اور شاگرد رکھ لوں گا۔"
معاملہ بگڑتا ہوا دیکھ کر میں بیچ میں بول پڑا کہ" چھوڑیں سادہ خان بھائی! بے چارہ غریب گھرانے کا لگتا ہے ۔"  سادہ خان  بہت دکھ سے کہنے لگا" ہاں سیماب صاحب! غریب گھرانے کا تو ہے مگر بے چارہ نہیں ہے۔ کیوں کہ افطاری کے بعد گھر سے نکل جاتا ہے اور  ساری رات والی بال اور دوسری گیمز کھیلتا رہتا ہے ۔ رمضان جیسے مہینے میں بھی اس کو نہ نماز کی فکر ہے اور نہ مسجد جانے کی کوئی  پرواہ۔ نہ قرآن مجید کو ہاتھ لگاتا ہے اور نہ گھر والے کے کسی کام آتا ہے ۔ سحری کے وقت گھر نازل ہوکر پیٹ بھرکر  سو جاتا ہے ۔ صبح 10 بجے کے بعد اُٹھ کر نہا دھو کر آپ کے سامنے 11:30 دکان پر آیا ہے۔" میں حیران ہوکر  سادہ خان کا منہ تکتا رہا تو اس نےتھوڑی اُونچی آواز میں پکارا کہ " اب آپ خود فیصلہ کریں۔"
میں نے موقع کی نزاکت کو بھانپتے ہوئے اُس لڑکے کو بلایا اور اپنے پاس بٹھاکر نہایت نرمی سے پوچھا ، " بیٹا ! آپ کیا کہتے ہیں ؟ " اُس کے جواب نے میرے اوسان خطا کردیے۔ اُس نے کہا " سر جی ! روزی روٹی دینے والا تو اللہ تعالیٰ ہے ۔ اگر استاد کا یہی رویہ رہا تو میں کام چھوڑ دوں گا ۔" میں نے کہا " کام چھوڑنے کے بجائے اگر لیٹ آنا چھوڑ دیں تو کیسا رہے گا ؟" کہنے لگا " سرجی! آپ استاد کے دوست ہیں اس لیے آپ بھی وہی کہہ رہے ہیں جو استاد کہہ رہا ہے ۔"مجھے لگا جیسے کسی نے میرے دل میں چھری گھونپ دی ہو ۔ چند لمحے  خود کو سنبھالنے کی کوشش میں لگا کر پھر اس سے مخاطب ہوا۔" نہیں بیٹا ! ایسی بات نہیں ہے ۔ بہرحال آپ کے ابو آپ کو منع نہیں کرتے ؟" اُس نے ہنستے ہوئے کہا "پہلے تو ان کے پاس اتنا وقت نہیں ہے کہ میرا یا کسی دوسرے بہن بھائی کا انھیں پتہ چلے ۔ فرض کیا اگر ان کو وقت مل بھی جائے تو مجھے کیسےمنع کریں گے ، وہ خود کون سا ولی اللہ ہیں ؟  میں اگر والی بال یا کوئی اور گیم کھیلنے جاتا ہوں تو وہ تاش کھیلنے جاتے ہیں ۔ میں اگر موٹر سائیکلنگ کے لیے نکلتا ہوں تو وہ بھی تو کسی ہوٹل میں چائے پیتے ہوئے سیاست پر تبصرے کرتے ہوئے گھنٹے گزارتے ہیں ۔"
میں نے اسے سمجھانے کی بہت کوشش کی ، ہر طرح کی دلیلیں دیں ۔ اچھا برا الگ الگ کرکے اس کے سامنے رکھ دیا ۔ لیکن اس نے ایک نہ مانی اور یہ کہتے ہوئے جانے کو اُٹھا کہ " سرجی! اللہ آپ کو خوش رکھے ۔ جو آپ کو دوسروں کے نفع نقصان کی اتنی فکر ہے۔ لیکن میں بھی کوئی بچہ تو نہیں ہوں ۔ 22 سال میری عمر ہے ۔ لیکن ابھی سے اگر میں گھر بار ، کمانے بچانے کی فکر میں لگ گیا یا آخرت اور جنت دوزخ کی جھنجٹ میں پڑ گیا تو لائف تو پھر برباد ہوگئی نا ۔ چند سال عیش کرنے کے بعد سدھر جائیں گے نا ۔"وہ اُٹھا مجھ سے ہاتھ ملایا اور کام میں مصروف ہوگیا ۔ اس کے جانے کے کافی دیر بعد سادہ خان میرے پاس آیا اور پوچھا کہ کیا نتیجہ نکلا۔ ابھی میں جواب دینے کی تیاری میں تھا کہ اس نے خود ہی جواب دیا کہ" مجھے پتہ ہے آپ اسے قائل کرنے میں ناکام ہوگئے ہوں گے ۔ کیوں کہ جس شخص کا باپ اسے روکنے اور راہ راست پر لانے کی فکر نہیں کرتا کوئی اور کیا کرسکتا ہے؟" میں نے سوال کیا کہ" آپ نےفارغ کرنے کا کہا تھا اب کیا خیال ہے ؟ " "رمضان میں کچھ نہیں کہتا ، اس دوران نرمی سے سمجھاتا بھی رہوں گا ۔ سیدھے راستے پر آگیا تو ٹھیک نہیں تو مجبوراََ فارغ کرنا پڑے گا کیوں کہ اس کے ادھر رہنے سے باقی شاگرد اس کا اثر لے کر خراب ہوں گے۔"
یہاں پر چند باتیں قابل توجہ ہیں:۔
پہلی یہ کہ والدین اپنی زندگی میں اتنے مصروف ہیں کہ انھیں اپنی اولاد کی مصروفیات زندگی کا علم تک نہیں ہوتا ۔
دسری یہ کہ والدین خود غیر اسلامی اور لایعنی کاموں میں لگے ہوئے ہوں تو اولاد کو کیسے روک پائیں گے؟
تیسری یہ کہ اگر آپ کے دل میں کسی کے لیے درد اُٹھتا ہےاور آپ اس کی اصلاح کی فکر کرتے ہیں ۔ تو وہ آپ کے خلوص پر شک کرتا ہے اور اسے آپ کے امر بالمعروف یا نہی عن المنکر میں آپ کا کوئی مفادنظر آتاہے ۔
چوتھی یہ کہ اگر وہ آپ کو اپنا مخلص مان بھی لے تو آپ کی بات نہیں مانتا کیوں کہ وہ خود کو عقل مند اور خودمختار سمجھتا ہے۔
پانچویں یہ کہ اگر درج بالا باتیں پائی جائیں تو ایسے شخص سے کنارہ کشی اختیار کرنی چاہیے کیوں کہ ایک مچھلی سارے تالاب کو گندہ کردیتی ہے۔
(تحریر : عبداللہ سیماؔب)

Post a Comment

0 Comments