امام صاحب نے جسے ہی دوسری طرف سلام پھیرا ۔ میرے آس پاس والے ایک شخص کو
بہت بُری طرح ڈانٹنے لگے۔ امام صاحب نے موقع کی نزاکت کو بھانپتے ہوئے معمول کے
خلاف جلدی کا مظا ہرہ کیا اور دعا کے لیے ہاتھ اُٹھا ئے ۔تو منہ سے جھاگ اُڑاتے
ہوئے مقتدی خاموش ہوگئے ۔آخر وجہ کیا ہے کیوں اُس شخص کو اتنی شدت سے ڈانٹ پلائی
جا رہی ہے ؟
آج کل مسجد
میں کسی کو ڈانٹنے کی ایک عام سی وجہ اور کثرت سے رونما ہونے والا واقعہ دورانِ
نماز موبائل فون کی گھنٹی کا بجنا ہوتا ہے ۔ جس سے واقعی نماز میں خلل پڑتی ہے ۔ لیکن
موبائل کی گھنٹی سے زیادہ بربادی تو اس شخص کو ڈانٹنے والوں کے شور سے ہوتی ہے ۔
مساجد کی بے قدری اور بے توقیری کسی بھی صورت جائز نہیں گردانی جاسکتی ۔ مسجد میں
داخل ہوتے وقت پوری طرح احتیاط کرنی چاہیے ۔ کیوں کہ اپنے افسر یا کسی اور بڑی
شخصیت کے سامنے جانے سے پہلے ہم خود پر سر سے پیر تک کتنی دفعہ تنقیدی نگاہ ڈالتے
ہیں ۔ تو کیا یہ مناسب ہے کہ احکم الحاکمین کے سامنے حاضر ہوتے ہوئے کوئی بھی
احتیاط یا تیاری نہیں کرنی چاہیے ۔نہ کوئی ادب آداب برتنے چاہئیں۔نہ کسی خاص تیاری
کا اہتمام ہونا چاہیے۔
ہم اکثر کہہ دیتے ہیں کہ نماز سے لیٹ ہوجانے
کی وجہ سے جلدی میں موبائل خاموش یعنی سائلنٹ کرنا بھول جاتے ہیں ۔ تو کیا کبھی ٹی وی ڈرامہ شروع ہونے
کے وقت سے یا گاڑی کے نکلنے کے وقت سے بھی لیٹ ہوئے ہیں ۔اور کیا مسجد میں صرف
موبائل کی گھنٹی بجنا ہی منع ہے ۔ اس کے علاوہ ہمارا جو دل کرے کرتے جائیں۔ مسجد
میں اونچی آواز سے بولنا، مسجد کی زمین پر زور سے پاؤں مارکر چلنا، کوئی گرم چیز
مسجد کی زمین پر بلاواسطہ رکھنا، مسجد کی دیواروں سے ٹیک لگانا، بلاضرورتِ شدید
کھانسنا، مسجد میں دنیاوی باتیں کرنااور پاؤں پھیلاکر بیٹھنا وغیرہ جیسے اعمال کیا مسجد میں کرنے چاہیئں؟
جہاں تک
بُھول جانے کی بات ہے تو یہ ہمارا قومی المیہ ہے ۔کہ جس کو بھی دیکھیں یہی کہتا
رہتا ہے کہ کوئی بات یاد ہی نہیں رہتی ۔ کسی سے کوئی کام کہہ دیں تو پوچھنے پر پتہ
چلتا ہے کہ جناب کو تو یاد ہی نہیں تھا ، کہ یہ کام کرنا تھا ۔ اکثریت کے ساتھ یہی
معاملہ ہورہا ہے۔ کسی سے ملنے جانا تھا ۔ بازار سے کچھ لانا تھا ۔ بچوں کا کوئی
کام ، کوئی ضرورت پوری کرنی تھی تو یاد
نہیں رہتا ۔ اور یاد آبھی جاتا ہے تو کب ؟
جب اس کام کے کرنے کا وقت گزر چکا ہوتا ہے ۔ آخر وجہ کیا ہے ؟ آئیے ہم اپنا
محاسبہ خود کرتے ہیں اُن تما م عوامل پر
غور کرتے ہیں جو کہ ممکنہ طور پر اس ساری صورتِ حال کے ذمہ دار ٹھہرائے جاسکتے ہیں
۔
1۔ اپنی طاقت یا
برداشت سے زیادہ کام کرنے کی خواہش یا
کوشش
2۔ بہ یک وقت ایک سے زیادہ کام کرنے کی خواہش یا کوشش
3۔ تھوڑے وقت میں زیادہ کام کرنے کی خواہش یا کوشش
4۔ ٹیکنالوجی کا حد سے زیادہ استعمال اور خود کو اس کا دست
نگر بنا لینا
5۔ دینی گفتگو کو دھیان سے نہ سننا ، خاص کر آذان اور مساجد
میں وعظ و نصیحت اور خطبہ ۔
6 ۔ حقیقی دنیا کے بجائے خیالاتی اور تصوراتی دنیا میں رہنا
۔ جیسے فیس بک وغیرہ میں ہر وقت مگن رہنا۔
7۔ جس کام میں لگے ہوئے ہوں اس کو پوری توجہ نہ دینا بلکہ
آگے پیش آنے والے کا م کے بارے میں غور و فکر کرنا ۔
8۔ وہ سب کچھ پا لینے کی جستجوکرنا جو کسی کو بھی حاصل ہیں ۔ چاہے اس شخص کا معاشی
اور معاشرتی لیول ہم سے کتنا ہی بہتر کیوں نہ ہو۔
ہوسکتا ہے کہ
کچھ اور بھی ایسے کام یا ایسی چیزیں ہوں جو اس فرست میں جگہ پاسکتی ہوں لیکن رہ
گئی ہوں ۔ یہاں پر قابلِ ذکر بات یہ ہے کہ ہم اس عمومی خامی اور بیماری کو سنجیدگی
سے لیں اور اس کی وجوہات معلوم کر کے اُن کو دور کرنے کے لیے باقاعدہ منصوبہ بندی
کریں اور اپنے آپ اور اپنے پیاروں کو اس شرمندگی سے دوچار کرنے والی عادت اور
بیماری سے نجات دلائیں ۔
(تحریر: عبداللہ
سیماؔب)
0 Comments