خواب میں آیا نہ کرو




دلِ ناشاد اپنے آپ کو رسوا نہ  کرو
یادِ جاں خوب ہے مگر کہ انتہا نہ کرو

تُو ہی  ظالم تُو ہی مجرم خطا کار تُو ہے
دلِ ناداں سمجھایا تھا کہ ایسا نہ کرو

کہتے مجبور خود کو ہیں ، ملنے سے روکتے ہیں
ہوجاؤ تم بھی مجبور ، ان کے ہاں جایا نہ کرو

کہیں مغرور اپنے حسن پہ وہ ہو نہ جائیں
اتنی چاہت بھری نظروں سے یوں دیکھا نہ کرو

ملنے پہ خوش مگر جی چُراتے ہیں ہم سے
کہہ دے اُن  سے کوئی کہ خواب میں آیا نہ کرو

کہیں پاگل تمھیں نہ کردے یہ تنہائی تیری
ساتھ میں بیتے ہوئے لمحوں کا اب سوچا نہ کرو

جو التجا تیری اُن کو فرمائش لگتی ہے
تجھے قسم ہے اے سیماؔب کہ رویا نہ کرو

( عبداللہ سیماؔب )

Post a Comment

0 Comments