خانہ دل میں کوئی آیا مکیں چپکے چپکے
عالم سنگ و خاک ہوا زریں چپکے چپکے
تا بہ حیات نہیں بھول پاؤں گا وہ ادا
رکھی کندھے پہ میرے اُس نے جبیں چپکے چپکے
چاہنے والوں میں یہ انداز نرالا پایا
سیدھی سی بات کرلیتے ہیں شیریں چپکے چپکے
ان کے ملنے سے عجب حال اپنا ہوتا ہے
نظر آتا ہے خار ہم کو حسیں چپکے چپکے
ان کی ہر بات کے جواب میں ہاں کہتے ہیں
گو کہ کہنا ہوتا ہے ہم نے نہیں چپکے چپکے
وہ جو کہتے ہیں سنا حال تیرا کیساہے؟
ہونے لگتا ہے حال چہرے سے مُبیں چپکے چپکے
جسم و زباں کیا آنکھوں نے بغاوت کی ہے
ہوئے حالات میرے کیسے سنگیں چپکے چپکے
اب تو اُس راہ سے جانا فضول کام ہے سیماؔب
وہ جو تھے ہوگئے ہیں پردہ نشیں چپکے چپکے
( عبداللہ سیماؔب )
0 Comments