کہتے ہیں ایک
شخص روزگار کے سلسلے میں گھر سے دور کسی دوسرے شہر گیا ہوا تھا جہاں سے سال بھر
کہیں جا کر چھٹی ملتی ۔ علاقے کا کوئی ساتھی چھٹی جانے لگا توسب نے اپنے اپنے
گھروں کےلیے سامان اور رقم وغیرہ دی اور گھرکی خیر خبر لینے کی بھی تاکید کی ۔ اُس
نےبھی دوسروں کی طرح کیا ۔ چھٹی گزار کر جب وہ ساتھی واپس ہوا ۔ ۔ تو سب کے لیے
اپنے گھروں کے حالات اور تھوڑا بہت گھریلو تیار کی گئی چیزیں لایا ۔ وہ شخص بھی اپنے ساتھی کے پاس بیٹھا سنتا رہا ۔
جب سب کو اُن کا سامان حوالے کیا گیا اور
گھروں کے حالات سنائے گئےتو اُس نے بھی اپنے ساتھی سے پوچھا کہ میرے گھر کاتو آپ
نے ذکر ہی نہیں کیا ۔ مجھے بھی کچھ بتا
ئیں ۔ ساتھی نے کہا کہ آپ کی بکری کا بچہ
مرگیا تھا باقی سب خیر خیریت تھی ۔ اُس شخص نے پوچھا کہ کیسے مرگیا تھا بچہ ۔ ساتھی
نے کہا بھوک سے مر گیا تھا کیوں کہ اُس کی
ماں جومرگئی تھی ۔ شخص نے حیرت سے بکری کے مرنے کی وجہ پوچھی تو ساتھی نے کہا کہ
کہ ظاہر ہے مالکن یعنی اُس شخص کی بیوی کے فوت ہوجانے کے بعدکوئی رکھوالی کرنے
والا تھا نہیں تو ایک دن بھیڑیا کھا گیا ۔ شخص نے دل پر ہاتھ رکھ کر اپنی بیوی کی
وفات کی تصدیق کرانے کو پوچھا تو کہا بیچاری کیوں فوت نہ ہوتی معصوم بچے کی موت کا
غم کیسے برداشت کرتی ؟
وہ شخص پریشان، اپنے ساتھی کا منہ تکتے ہوئے
کہتا ہے کہ سب سے چھوٹا بیٹا بھی انتقال کرگیا ہے ۔ لیکن کیسے ؟ ساتھی نے کہا کہ
بیچارے کی غلطی نہیں تھی حلق میں ہڈی پھنس جانےسے فوت ہوا ہے ۔آپ کی بیوی لوگوں کو
کھانا وغیرہ دینے کی نگرانی میں مصروف تھیں ۔ کھانا؟ کیسا کھانا؟ اس شخص نے حیرت
اور غم میں دریافت کیا تو ساتھی نے کہا کہ آپ کے امی ابو ااور تین بڑے بچوں کے
ایصال ثواب کے لیے خیرات جو کی گئی تھی اس کا کھانا۔ اُف امی ابو اور بڑے تین بچے
بھی فوت ہوئے ہیں ؟ ساتھی نے سادگی سے کہا کہ کیسے بچتے جب پورا مکان ہی اُن کے
اوپر گِرا تھا ۔ ہائے خدایا ۔۔۔ اُس شخص
کےمنہ سے چیخ نکلی اور دھاڑیں مارتا ہوا
محفل سے اُٹھ کھڑا ہوا ۔ ماں باپ، بیوی بچے اور مکان کچھ باقی نہیں بچہ تھا اور وہ
ساتھی کہہ رہا تھا کہ باقی خیر خیریت ہے ۔
بہت معذرت کے
ساتھ بالکل یہی حال ہمارا ہے ۔ کسی سے کہا جائے کہ آپ کی یہ عادت تواسلامی احکامات
اور ہماری روایات کے خلاف ہے تو جواب ملتا ہے کہ یہی ایک نامناسب چیز کی عادت پڑی
ہوئی ہے ۔ باقی تو ہم بالکل ٹھیک ٹھاک سولہ آنے ہیں ۔ یعنی وہی چھٹی سے واپس آنے
والے ساتھی کی بات ، کہ باقی سب خیر خیریت ہے ۔ لیکن اگر موصوف کے ساتھ کچھ عرصہ
گزارا جائے تو دال آٹے کا بھاؤ معلوم ہو
جاتا ہے ۔ بلکہ وہ جو کہتے ہیں نہ کہ دن میں تارے نظر آنا تو وہ نظر آجاتے ہیں ۔
کون سی معاشرتی خامی اور برائی ہے جو ہم میں نہیں ہے، غیبت ، چغل خوری ، دروغ گوئی
، دھوکہ دہی ۔ وعدہ خلافی ، بے جا ہٹ
دھرمی ، بہتان تراشی ، حسد ، کینہ،
بغض، انا پرستی ،کانا پوسی ، لگائی بجھائی ، سہل پسندی غرض ہر وہ برائی جو کہ وجود
رکھتی ہے وہ ہم میں بدرجہ اتم موجود ہے ۔ اور یہ راگ الاپتے رہتے ہیں کہ صرف یہی
ایک تھوڑی ناگوار خصلت پتہ نہیں کس کی وجہ سے مزاج میں نادانستہ آگئی ہے باقی تو
آسمان ہماری وجہ سے قائم و دائم ہے ۔
مذکورہ بالا برائیوں کو چونکہ کسی خاطر میں
نہیں لایا جاتا اس لیے ان کو دور کرنےکی کوئی فکر ہی نہیں کی جاتی ۔ حالانکہ ان
میں سے ایک ایک برائی ایسی ہے کہ وہ کسی قوم کی قوم کا بیڑا غرق کرنے کے لیے تنِ
تنہا کافی ہے ۔چہ جائیکہ کسی فرد یا قوم
میں یہ سب موجود ہوں ۔ بحیثیت مسلمان اور محب
الوطن پاکستانی کے یہ ہر مردوزن کا فرض ہے کہ وہ اپنے گردوپیش میں موجود برائیوں
کا قلع قمع کرنے کا عزم کر لے ۔ اگر ہم اقوامِ عالم میں سر اُٹھا کر زندگی بسر
کرنا چاہتے ہیں اور روزِمحشر اپنے خالقِ حقیقی کے دربار میں پیش ہونے کی تھوڑی سی
بھی فکر رکھتے ہیں تو ہمیں چاہیے کہ بڑی برائیاں تو کیا معمولی معمولی خامیوں اور
برائیوں کو بھی اپنے آس پاس پھٹکنے ہی نہ دیں گے ۔ اللہ تعالی ٰ ہم سب کا حامی
وناصر ہو ۔
(تحریر: عبداللہ سیماؔب)
0 Comments