سُرمئی شامیں اور اۤس کی یادیں



سُرمئی شامیں اور اس کی یادیں

آج شام کے سُرمئی سایوں میں یادیں کسی کی آتی ہیں
جو  بیتی  ہیں  اُسی  کے  سنگ ، لمحے  مجھے ستاتی  ہیں

میں تنہا ہوں لوگوںمیں بھی ، کوئی جاکر اُسے بتا دے یہ
جیسے بھی  ہو  وہ  آن  ملے،  بانہیں  اُسے  بلاتی  ہیں

دل  خون  کے آنسُو  روتا  ہے گو کہ  لبوں پر ہنسی ہے
یہ  ظاہر  باطن کی  دوریا ں ،  سُنو  بہت  تھکاتی  ہیں

میں پیار کا ایک سمندر ہوں کوئی دیکھے بھی اُتر کے تو
موجیں ہیں میری بپھری ہوئی،  ہر چند بہت ڈراتی ہیں

اے کاش مجھے یہ حق ملے کچھ اپنی مرضی سے خاس کروں
مٹادوں  میں ،  وہ  زندگیاں  جو  زندگیاں  مٹاتی  ہیں

ہے زیست میری کا المیہ ، ہوں مختلف میں لوگوں سے
سیماؔب  اپنا لے  تُو  مجھے  ،  تنہائیاں      رُلاتی  ہیں

(عبداللہ سیماب)

Post a Comment

0 Comments