الوداع 2018ء اور مرحبا 2019ء


روز اول سے جب سے یہ دنیا پیدا کی گئی ہے اس میں موجود ہر شئے کے لیےابتدا اور انتہا رکھی گئی ہے ۔ صرف اللہ تعالیٰ کی اپنی ذات کی نہ کوئی ابتدا ہے اور نہ کوئی انتہا ۔ وہ ازل سے ہے ابد تک رہے گی۔ سادہ الفاظ میں یوں کہا جا سکتا ہے کہ ہمیشہ سے ہے اور ہمیشہ تک ہے۔ دانشورانِ جہاں کہا کرتے ہیں کہ کسی شئے کی ابتدا ہی اُس کی انتہا ہوتی ہے ۔ جب کوئی چیز وجود میں آتی ہے تو اُس کے ساتھ ہی اُس کے اختتام کا فیصلہ بھی ہو چکا ہوتا ہے  ۔ کچھ چیزوں کے ختم ہونے کی مقررہ مدت یا تاریخ  کا ہمیں پہلے سے پتہ ہوتا ہے اور کچھ کا نہیں ہوتا  ۔ جن کے ختم ہونے کی تاریخ یا مدت کا ہمیں علم ہوتا ہے ہم اُن سے ختم ہونے سے پہلے بھرپور فائدہ اُٹھانے کی اپنی سی سعی کرتے ہیں ۔ اور جن کے اختتام کا علم نہیں اُس کے لیے بھی ہم اپنے طور پرخاطر خواہ منصوبہ بندی کرتے ہیں ۔
      ہم سب میں تقریباََ ایک قدرِ مشترک ہے کہ جہاں پیسے کے ضیاع کا خدشہ ہو وہاں ہماری ساری  حِسیں بیدار اور پوری طرح فعال ہوتی ہیں ۔ لیکن کیا پیسہ ہی سب کچھ ہے ؟ اور اگر مان بھی لیا جائے کہ پیسہ ہی سب کچھ ہے۔ تو کیا یہ بات درست ہے کہ ہم ابھی تک یہ نہیں جانتے کہ  پیسہ صرف خرچ ہونے ، گُم ہوجانے یا  چوری ہونے سے ضائع نہیں ہوتا ؟بلکہ کمانے کے لیے موجود مواقع کو ضائع کرنے سے بھی پیسے کا ضیا ع ہوتا ہے ۔ اس لیے موجود اور ممکنہ مواقع کو اچھی طرح بروئے کار لانا ہی وقت کی اہم ضرورت ہے ۔
     جہاں تک وقت کی بات ہے تو ہمیں یہ کہنے میں قطعاََ کوئی عار محسوس نہیں رہی ہے کہ ہم کسی شئے کواتنا  بے دردی سے ضائع نہیں کرتے جتنا کہ وقت کو ضائع کرتے ہیں ۔ اگر ایمانداری سے سوچا جائے تو جب 2018 شروع ہو رہا تھا ہم نے نئے سال کی کتنی خوشی منائی ۔ کس شان سے اس کا استقبال کیا ۔ فیس بک ، وٹس اپ ، مسینجر، موبائل مسیجز ، آڈیو اور ویڈیو کالز غرض ہر ذریعے سے ہم نے خود کو زندہ قوم ظاہر اور ثابت کرنے کی سرتوڑ کوششیں کیں ۔ کچھ نےسال کی آخری رات جاگ کر گزارنے کی ٹھان لی ، نئے سال کا سورج دیکھنے کے لیے صبح سویرے اُٹھنے کا پوگرام بنایا  تو کچھ نے  کہا کہ نئے سال کا آغاز ہے اس لیے پہلی تاریخ کو چھٹی ہونی چاہیے ۔
    لیکن اگلے ہی دن یعنی نئے سال کے دوسرے دن ہی ہم میں سے کتنے تھے جن کو یہ یاد رہا کہ نیا سال شروع ہو چکا ہے تو پچھلے سال سے زیادہ کام کر کے ، زیادہ ایمانداری کا مظاہرہ کر کے ملک اور قوم کو کچھ فائدہ پہنچا نا ہے ۔ ملک و قوم کو ہی کیا اپنی ذات کے لیے اور اپنی فیملی کے لیے بھی تو ہم نے کوئی بات نہیں سوچی ہوگی ۔ یا اگر سوچی بھی تھی تو آج 2018 کے آخری دن کیا ہم نے اس کو چیک بھی کیا ہے کہ اُس میں کتنے کامیاب ہوئے ہیں اور اگلے سال کیا کرنا چاہتے ہیں ؟  
  ذات ، فیملی، ملک اور قوم کے علاوہ کوئی اور بھی ہے جس کا ہم پر حق ہے ۔ جس نے کچھ فرائض ہم پر لاگو کیے ہیں ۔ اُن کو ہم نے کس حد تک پورا کیا ہے ؟ کتنی نمازیں ادا کیں ہیں اور کتنی قضاء کیں ہیں ؟ کبھی اُس کے کتاب کو بھی کھولنے کا موقع آیا ہے کہ نہیں ؟ کتنی تسبیحات اور کتنا ذکر اذکار کیا ہے ؟ خالص اُس کی رضا کے لیے کیا کچھ کیا ہے ؟ اللہ کرے کہ ہم سب کا جواب بہت مثبت اور بہت حوصلہ افزاء ہو ۔لیکن اگر خدانخواستہ ایسا نہیں ہے تو:
 آئیں عہد کریں کہ نئے سال کے آنے سے پہلے ہی اپنی  خطاؤں پر توبہ تائب ہوکر آئندہ کے لیے محتاظ ہوجائیں ۔ تو وہ ربِ کریم ہمیں اپنے خاص بندوں بلکہ دوستوں میں شامل کر لے گا ۔
اورجس دنیا کے پیچھے ہم پاگلوں کی طرح بھاگ رہے ہیں اگر اس کے  خالق اور مالک کے ساتھ ہماری دوستی بن گئی تو تو اندھے کو اور کیا چاہیے ۔ ہم خورما ہم ثوب ۔ دنیا بھی ہماری اور آخرت بھی ہماری ۔  

(تحریر : عبداللہ سیماؔب)

Post a Comment

0 Comments