کیا ہم انسان ہیں ؟ لگتاتو نہیں ۔




کیا ہم انسان ہیں ؟ لگتاتو نہیں   ۔

مجھے اخبا ر دیکھنے کا اتناشوق نہیں ہے ۔ اس کی چند وجوہات ہیں :۔
1۔ اکثر معلومات نیٹ وغیرہ سے مل جاتی ہیں ۔
2۔ زیادہ سے زیادہ پیسے کمانے کے چکر میں اس مشغلے کے لیے  وقت ہی نہیں بچتا ۔
3۔ روز اخبار میں ایسے وقعات دیکھنےکو ملتے ہیں کہ ہفتوں کیا مہینوں دل اُداس رہتا ہے ۔
     لیکن پھر بھی کبھی کبھارنظر سےایک آدھ اخبار گزر ہی جاتا ہے ۔ کیونکہ احباب ( اللہ تعالیٰ بہت بہت عزت دے ) پکڑا ہی دیتے ہیں  ۔اورجن حالات سے ہم خود کو بچانا چاہتے ہیں  وہ پیش آہی جاتے ہیں کیوں کہ جو ہوناہے وہ ہو کر رہتا ہے ۔

     آج صبح بھی ایک مہربان دوست نے اخبار تھما دیا کہ جب تک چائے آتی ہے آپ اخبار سےلطف اندوز ہوں ۔ ہم نے بھی اخبار مذکورہ سے دو دو ہاتھ کر لینے اور جلدی سے جان چھڑانے کو اخبار پر جو جھپٹا مارا تو ۔۔۔۔۔۔ اُف میرے اللہ یہ کیا  ہوا ہے ؟  ایک  اندوہناک اور دل دہلادینے والی خبر پر جو نظر پڑی تو  دل پکڑ کر رہ گئے ۔ خود کو نارمل کرنے اور دیکھنے والوں کی نظر میں آجانےسے  بچانے کے لیے اخبار کے صفحے کے نچھلے حصے پر نظر دوڑائی ۔
 پتہ ہے کیا ہوا ہوگا  ؟ میں وہ کیفیت بیان نہیں کر پا رہا  کہ مجھے کیسے محسوس ہوا؟ مجھے لگا جیسے دل دھڑکنا بھول گیا ہو ۔ کلیجہ منہ کو آتا محسوس ہوا ۔ کاش میں وہ خبر دیکھ ہی نہ لیتا پتہ تو تب ہی کسی نہ کسی ذریعے سےچلنا ہی تھا لیکن اس طرح اچانک دو غم : جیسے کوئی کسی شکار پر ڈبل بیرل بندوق سے فائر کردے

      پہلی خبر یہ تھی  :
 نوشہرہ : نو سالہ بچی زیادتی کے بعد قتل ،لاش کے ٹکڑے ٹکڑے کر دئیے ۔
                                   بچی مدرسے کے لیے گھر سے نکلی لیکن واپس گھر نہیں آئی   ۔
  خبر پڑھنےپر زینب کی جو تصاویر میڈیا پر دیکھی تھیں وہ آنکھوں کے سامنے آگئیں   ۔اور مجھے لگا کہ وہ کچھ کہہ رہی ہیں ۔ کتنی معصوم پیاری صورت ۔  بچے بچے ہوتے ہیں ۔ کسی کے بھی ہوں پیارے لگتے ہیں کیوں کہ بچے تو پھول ہوتے ہیں اور پھول کسے پیارے نہیں لگتے ۔ آخر کیوں ہوس کے پجاری اور انسان کی شکل میں شیطان ان کو مسل ڈالنے کے در پے ہیں ۔یہ سب کیا ہے کیوں ہورہا ہے ؟   اس ساری صورت حال سے کیسے نکلا جائے     ،  آخر کون ان کو روکے گا  ،  کیا ہم حقیقت میں ان کو روک بھی رہے  ہیں یا نہیں ؟   ان جیسے کئی سوالات نے میرے ذہن پر حملہ کردیا۔ چند لمحوں کو میں اپنے گردوپیش کو بھول ہی گیا ۔پاس ہی کسی کی اونچی آواز نے چونکا دیا تو پتہ چلا کہ ہم تو یہیں بیٹھے ہیں ۔  
   خیالات کی دنیا سے واپس آیا توکسی خوشی کی خبر سے خود کو تسلی دینےکے لیے باقی اخبار پر نظر دوڑائی۔  اُف میرے مولا  یہ کیا دیکھ رہے ہیں ۔ 
     خبر تھی :
   ایبٹ آباد: تین سالہ بچی سے زیادتی اور قتل پر سپیکرکا ایکشن  ۔
  ملزموں کو سرعام سزا کے لیےقانون بنانے کی تجویزاور قاتلوں کو نہ چھوڑنے کے عزم  کا اظہار  ۔   
    ایک اور جھٹکا لگا ۔ نو سال  کی بھی بچی تھی اس کےساتھ زیادتی اورقتل ظلمِ عظیم محسوس ہوا لیکن جب تین سالہ بچی کی خبر دیکھی تو مجھے لگا جیسے میرے اندراندھیرا چھا گیا ہو ۔ آگے خبر میں کیا تھا پتہ ہی نہ چلا۔ مجھے لگا کہ ہم انسان نہیں  ہیں آپ کہیں گے کہ ظلم کرنے سے انسان نہ ہونے کا کیا تعلق ہوسکتا ہے ۔ لیکن کیا آپ نے کبھی کسی جانور کو اپنی نسل یا کسی بھی دوسری نسل کے جانور کے بچے کے ساتھ یہ سب کچھ کرتے دیکھا یا سنا ہے ؟ مجھے یقین کہ کہ آپ کا جواب ہوگا کہ نہیں دیکھا ۔ پیٹ بھرنے کے لیے جو جانور دوسروں کا شکار کرتے ہیں وہ بھی صرف کھانے کے لیے ان کو مارتے ہیں ۔ ایسا تو کوئی بھی ذی روح نہیں کرتا ۔ آخر ہم کون سی مخلوق ہیں ۔ کیا ہم اشرف المخلوقات ہیں کیا ہم عبادالرحمٰن ہیں ۔ بلکہ ہم کسی رب کو مانتے بھی ہیں کیا ہمیں یہ خیال بھی کبھی آیا ہے کہ ہمارا کوئی مالک اور پیدا کرنے والا ہے جس کے روبرو پیش ہو کر ہم نے اپنے تما م اعمال کا حساب دینا ہے ۔
     آخری گزارش یہ ہےکیا اس ساری صورت حال کی ذمہ دار حکومت ہے یا کسی اور کی بھی کوئی ذمہ داری بنتی ہے ؟ شعبہ تعلیم سے وابستہ ہونے کی وجہ سے  چونکہ واسطہ ہر وقت بچوں سے رہتا ہے اور زندگی کے 22سال اس میدان میں گزار کر جو تجربہ حاصل ہوا ہے اس کی بنیاد پر یہ یقین سے کہا جا سکتا ہے کہ بہت سی باتوں میں ہماری لاپرواہی بلکہ بے حسی کوبھی کسی حد تک عمل دخل ہے ۔ یہ  بے حسی حکومتی سطح پر بھی ہے اور عوامی لحاظ سے بھی ہے ۔ ہم انفرادی طور پر بھی بے حس ہیں اور ہمارے ادارے بھی اسی بیماری کے شکار ہیں ۔ جہا ں تک حکومت اور ادارے ہیں وہ نہ ہمارے بس میں ہیں اور نہ اُن سے ہمیں کچھ لینا دینا ہے ۔رہ گئی فرد اور معاشرہ کی بات تو اس سلسلے میں آئندہ کسی نشست میں بات کریں گے اس وقت عرض صرف اتنا ہے کہ اپنے آس پاس پر نظر رکھیں شاید ہمارا توڑا سا دھیان اور توجہ کسی کا بہت بڑانقصان  ہونے سےبچانے میں کچھ کام دے سکے ۔
    اللہ ہم سب کا حامی اور ناصر ہو ۔

                               (تحریر :عبداللہ سیماؔب)
                           (تصاویر  29 دسمبر کےایکسپریس اخبار سے لی گئی ہیں)
      

Post a Comment

0 Comments