جب بھی میں چاند کو دیکھوں گا تم یاد آؤ گے
جس کے بھی سنگ میں رہوں گا تم یاد
آؤگے
تمھاری ہنسی میرے کانوں میں آواز دے گی
جب، جس محفل میں بھی ہنسوں گا تم یاد آؤگے
جہاں کہ ساتھ ہم رہے تھے جسم و جاں کی طرح
تنہا اُدھر
سے جو گزروں گا تم یاد آؤگے
میں نے مانگا ہے
اتنی بار دعاؤں میں
تجھے
اب جو ہاتھ
اُٹھاؤں گا تم یاد آؤگے
تمھارا نام بار بار
آئے گا زباں پہ
میرے
کسی کا نام
اگر، میں لوں گا تم یاد
آؤگے
جن میں لکھا ہے اپنے ہاتھ سے کچھ بھی تم نے
اُن کتابوں
کو اُٹھاؤں گا تم یاد آؤگے
تم نے ہر کام میں دیا جو میرا ساتھ جاناں
کوئی بھی کام میں
کروں گا تم یاد
آؤگے
نازک مزاج بنایا مجھے ، ہر
ناز اُٹھا کر
اب جو ہر بات پہ روٹھوں
گا تم یاد آؤگے
خالص جذبات گرم چائے کی مانند تیرے
چائے کا پیالہ کبھی پکڑوں گا
تم یاد آؤگے
تم نے جو ذات کو میری ایک نیا ٹچ دیا ہے
جہاں
بھی ٹچ میں پاؤں گا
تم یاد آؤگے
بہار کے آتے ہی خزاں ہم کو دے گئے ہو
جدھر
بہار سے گزروں گا تم یاد آؤگے
میری خوشی کا بہت خیال رکھا کرتے تھے
اپنی خوشی کا
جب سنوں گا تم یاد آؤگے
کبھی کہا تھا کہ بہت آپ سوچا نہ کریں
کبھی بہت جو سوچوں گا
تم یاد آؤگے
ایک دن پوچھا تھا کہ سیماب کہلاتے ہیں کیسے
ہائے مضطرب جو ہوؤں
گا تم یاد آؤگے
(عبداللہ سیماب)
0 Comments